رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: سمندری طوفان اتنا تباہ کُن نہیں تھا


امریکی اخبارات سے: سمندری طوفان اتنا تباہ کُن نہیں تھا
امریکی اخبارات سے: سمندری طوفان اتنا تباہ کُن نہیں تھا

امریکہ کے مشرقی ساحلی علاقوں میں Ireneنامی طوفان نے جو تباہی مچائی ہے اُس پر اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ اِس سے نقصان ضرور ہوا ہے اور معمولاتِ زندگی درہم برہم ضرور ہوئے لیکن یہ طوفان اتنا تباہ کُن نہیں تھا۔

اتوار کے روز 60لاکھ گھر اور تجارتی دفاتر بجلی سےمحروم ہوگئے تھے۔ وسیع علاقے زیرِ آب آگئے تھے، جگہ جگہ درخت اور بجلی کی لائنیں گری ہوئی تھیں۔طوفان کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کم از کم 18تھی۔

یہ تباہی چھ سال قبل Katrinaنامی ہری کین کے ہاتھوں لوئزیانہ میں ہونے والی بربادی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جہاں ہلاک ہونےوالوں کی تعداد1800سے کہیں زیادہ تھی، جب کہ ہزاروں مکان بھی برباد ہوئے تھے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے شمال مشرق میں بڑے ہری کین یا طوفان کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

پچھلے 160برسوں میں نیویارک میں کُل بارہ ہری کین آئے ہیں۔ اِس کے مقابلے میں فلوریڈا پچھلے تیرہ برسوں میں ایک درجن بار ہری کینز کا نشانہ بن چکا ہے اور لوئزیانہ پچھلے 19برسوں میں نو مرتبہ ستمبر 1948ء میں ایک طاقتور طوفان نے نیو انگلینڈ کے ساحلے علاقوں میں تباہی مچائی تھی جس میں 600افراد ہلاک اور 73000بے گھر ہوگئے تھے۔

لیکن Ireneاتنا تباہ کُن طوفان ثابت نہیں ہوا اور نیویارک پہنچتے پہنچتے اس کا زور ٹوٹ گیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ ترقی یافتہ راڈاراور طوفان کے بارے میں بالکل صحیح پیش گوئی کی صلاحیت اور بہتر مواصلاتی ذرائع کی وجہ سے طوفان میں مرنے والوں کی تعداد میں بھاری کمی آئی ہے۔

بزرگ ہندوستانی سرگرم سماجی کارکن انا ہزارے نے اپنی 13روزہ بھوک ہڑتال حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد ختم کردی ہے کہ رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لیے ایک نیا قانون مرتب کرتے وقت مہاتما گاندھی کے اِس چیلے کے مطالبات میں سے بیشتر کو شامل کر لیا جائے گا اور اس طرح وہ بحران اب ختم ہوگیا ہے جس نے ملک کے سیاسی عزم کو امتحان میں ڈال رکھا تھا۔

اِس پر’ وال اسٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اِن تیرہ دنوں کے دوران یہ حقیقت عیان ہوئی ہے کہ ہندوستان کا نظام سیاسی اختلاف کے مرحلے سے پُرامن طریقے سے گزر سکتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ دسیوں ہزاروں مظاہرین دارالحکومت کے وسط میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے لیکن کوئی تشدد نہیں ہوا اور نہ ہی مظاہرین اور امن و امان نافذ کرنے والے حکام کے درمیان کوئی سنگین محاذ آرائی دیکھنے میں آئی۔ یہ حالیہ مہینوں میں مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے اُن مناظر کے بالکل برعکس ہے جن میں حکومتیں اُن کے اختیارات کو چیلنج کرنے والوں کو طاقت کے استعمال سے زیر کرتی نظر آتی ہیں۔

لیکن، اخبار کے بقول اس محاذ آرائی سے بھارت کی حکمتِ عملی وضع کرنے کی پالیسی میں بعض کمزوریوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے، یعنی حکمراں پارٹی کے پاس حکمتِ عملی وضع کرنے کا اختیار ہے جس میں سول معاشرے سے شاذ ہی مشورہ کیا جاتا ہے۔ سیاسی تنظیمیں یا ادارے اس پر کیا رائے رکھتے ہیں اُسے معلوم کرنے کے لیے پبلک سماعتیں منعقد کرنے یا دوسرے طریقے مروج نہیں ہیں۔ مسٹر ہزارے نے ضرور البتہ اپنا مؤقف ببانگِ دہل سنایا اور منوایا لیکن ایسا طویل بحث کے بعد ممکن ہوا۔

Tampa Bay Tribuneایک اداریے میں کہتا ہے اسامہ بن لادن کی وفات کی طرح لیبیا کے معمر قذافی کا زوال صدر اوباما کی خارجہ حکمتِ عملی کے لیے ایک کامیابی ہے۔

بعض ناقدین تو کہیں گے کہ نیٹو کو اِس سے زیادہ اور نسبتاً جلد کردار ادا کرنا چاہیئے تھا جب کہ بعض کہیں گے کہ امریکہ کو اِس سے بالکل الگ رہنا چاہیئے تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ اوباما کی پالیسی میں جوبھی نقائص ہوں اُن سے قطع نظر یہ بات ماننی پڑے گی کہ دنیا کو ایک اور ڈکٹیٹر سے نجات ملی ہے اور ایک اور مظلوم قوم کو نمائندہ حکومت قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور صدر اوباما نے اِس میں کردار ادا کیا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG