رسائی کے لنکس

نزاکت علی خان: ایک دوست جو نہ رہا


مختلف ادوار میں غم روزگار سے نمٹتے ہوئے، نزاکت صاحب نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے ہٹ کر انسان دوستی، ہمدردی اور رفاقت کے جو رشتے نبھائے ہیں اُنھیں اُن کے دوست احباب اور دیرینہ ساتھی ہمیشہ یاد رکھیں گے

ہمارے ایک دیرینہ ساتھی، سینئر صحافی اور وائس آف امریکہ اردو سروس کے ایک پرانے رفیقِ کار، نزاکت علی خان یہاں ورجینیا کے ایک ہسپتال میں طویل علالت کے بعد سوموار، 30 جون کو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ اُن کی عمر تقریباً 80 سال تھی۔

اُن کی تدفین دوسرے دٕن، یعنی منگل کو ورجینیا کےمضافات میں کی گئی۔

نماز جنازہ دارالہدیٰ مسجد، اسپرنگ فیلڈ میں ادا کی گئی جس میں اُن کے اہل خانہ کےعلاوہ بڑی تعداد میں دوستوں اور ساتھیوں نے شرکت کی۔

نزاکت علی خان نہ صرف ایک تجربہ کار صحافی تھے بلکہ انسانی رشتوں کے حوالے سے بھی ان کی ایک منفرد شخصیت تھی۔

وہ بیک وقت ایک پیشہ ورصحافی، نہایت مشفق والد اور پُرخلوص دوست تھے۔ اس کا تجربہ مجھے بھی ان کی برسوں پر محیط رفاقت کے دوران ہوا، جو آج بھی ہمارے ذہن پر نقش ہے اور ہمیشہ ان کی یادوں کا حصہ رہے گی۔

بات ہے 1967ء کی جب میں کراچی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا حصہ بنا۔ کراچی ٹیلی ویژن نے اُنہی دِٕنوں بعد میں اپنی نشریات کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مجھے پاکستان ٹیلی ویژن کے ذیلی ادارے، ایشین ٹیلی ویژن میں رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس میدان میں نسبتاً ایک نوجوان اور نووارد کی حیثیت سے میری ملاقات صحافت کے شعبے کے بہت سے پرانے اور نئے لوگوں سے ہوئی۔ اُن میں نزاکت علی خان بھی شامل تھے جو اے پی پی میں پہلے ہی سے ایک سینئر رپورٹر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، جس سے وہ 1960ء کے عشرے میں وابستہ ہوئے تھے۔ پھر رفاقت کا یہ سلسلہ ایک مستقل صورت اختیار کر گیا اور یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہوگئی۔

اکثر سرکاری ذمہ داریوں کی ادائگی کرتے ہوئے ان سے کراچی ایئرپورٹ اور دوسرے مقامات پر رابطہ رہا اور ہم مختلف واقعات سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے رہے۔ اس حوالے سے اکثر ان سے مفید ’ٹپس‘ بھی ملتیں اور رہنمائی بھی۔ میں دراصل ڈھاکے سے کراچی آیا تھا۔ لیکن نزاکت صاحب کراچی کے پرانے باسی تھے اور بھارت میں رامپور سے تقریباً 16 سال کی عمر میں ہجرت کرنے کے بعد جدوجہد کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اُنھوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تھا۔

کراچی میں اہم واقعات اور نیوز کانفرنسوں کی رپورٹنگ میں اکثر ہم اکٹھے ہوتے۔ نزاکت صاحب کا رپورٹنگ کا انداز بڑا برملا ہوتا اور وہ بڑی تیزی کے ساتھ کوئی بھی وقت ضائع کیے بغیر اہم معلومات اپنی ایجنسی کے ذریعے ترسیل کردیتے۔

ایسا ہی ایک موقع کراچی ایئرپورٹ پر اس وقت درپیش تھا جب پولینڈ کے صدر، اسپی چالسکی پاکستان کا دورہ کر رہے تھے۔ یہ دور تھا جنرل یحیٰ خان کا۔ ہوائی اڈے پر ان کی آمد کی کوریج کے لیے ہم بھی موجود تھے۔ بدقسمتی دیکھیئے کہ طیارے کی آمد کے بعد جب

پولینڈ کے صدر خیرمقدم کرنے والوں سےہاتھ ملا رہے تھے، اسی وقت ایک جنونی ڈرائیور طیارے کی پشت سے تیزی سے نمودار ہوا اور اپنے کیٹرنگ ٹرک سے استقبالیہ قطار کو کچلتا ہوا نکل گیا۔ پولینڈ کے صدر تو محفوظ رہے، لیکن اُن کے وزیر خارجہ، ولیناک ہلاک ہوگئے۔

اس کے علاوہ تین پاکستانی بھی جن میں دو فوٹوگرافر اور ایک سرکاری اہل کار شامل تھا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئےموقع پر ہی دم توڑ گئے۔ اُن میں اے پی پی کے فوٹوگرافر یاسین بھی شامل تھے جو نزاکت صاحب کے ساتھ اس استقبالیہ تقریب کی کوریج کے لیے وہاں موجود تھے۔

ایک افراتفری مچ گئی اور صوبائی گورنر جنرل رخمان گل سمیت اعلیٰ عہدے دار، پولیس اہل کار اور صحافی ادھر ادھر بھاگنے لگے۔

اس صورت حال میں، نزاکت علی خان، گو جذبات سے مغلوب، لمحہ بہ لمحہ ایرپورٹ سے اے پی پی کو تازہ اطلاعات فراہم کرتے رہے۔ جذباتی لمحات اور افراتفری کے ماحول میں اُن کی پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کا یہ منظر مجھے اب بھی یادہے جب وہ ایرپورٹ ٹارمک سے بھاگ بھاگ کر وی آئی پی لاؤنج میں جاتے اور وہاں سے فون پر اپنی ایجنسی کو اپ ڈیٹس فراہم کرتے، جو اُن کے ادارے کی جانب سے متواتر پرنٹر پر اخبار کے دفاتر میں پہنچتی رہیں۔

بقیہ باتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن، ایک شدید چیلنج کے پس منظر میں نزاکت علی خان نے رپورٹنگ کا جو قابل ِتقلید نقش چھوڑا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ تو محض ایک منفرد واقعہ تھا۔ متعدد موقعوں پر نزاکت صاحب نے ایک رپورٹر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور کراچی شہر میں شدید مسابقت کے ماحول میں، پیشہ ورانہ چابک دستی کا اپنے ہم پیشہ افراد کو گرویدہ بنالیا۔

وہ اے پی پی کے چیف رپورٹر اوراقتصادی امور سے متعلق ایک نامہ نگار کے طور پر طویل عرصے تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس حیثیت میں اُنھوں نے متعدد بیرونی ملکوں کا بھی دورہ کیا اور حالات و واقعات کی رپورٹنگ کرتے رہے۔ تاہم، شومی قسمت کہ بعض ناخوشگوار دفتری حالات نے اُنھیں اے پی پی میں اپنے شاندار کیریئر کو خیرباد کہنے پر مجبور کردیا اور وہ واشنگٹن میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہوگئے۔ یہ 1970ء کی دہائی کے آخری حصے کی بات ہے۔ مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے وہ پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وائس آف امریکہ سے اپنی برسوں کی وابستگی کے دوران اُنھوں نے جس دیانت داری، لگن اور پیشہ ورانہ مہارت سے خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

چند سال پیشتر، اپنی علالت کی بنا پر اُنھیںٕ وائس آف امریکہ سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی اور صحت کی خرابی نے اُنھیں گویا گوشہ نشینی پر مجبور کردیا۔

مختلف ادوار میں غم روزگار سے نمٹتے ہوئے نزاکت صاحب نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے ہٹ کر انسان دوستی، ہمدردی اور رفاقت کے جو رشتے نبھائے ہیں اُنھیں اُن کے دوست احباب اور دیرینہ ساتھی ہمیشہ یاد رکھیں گے اور یادوں کے جھروکے سے وہ جب بھی دیکھیں گے تو اُن کی خوشگوار مہک محسوس کریں گے۔

پیشہ ورانہ باتوں سے ہٹ کر، مجھے ذاتی طور پر اُن کی رہنمائی، برادرانہ سلوک اور مدد کا جذبہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

جب میں 1985ء میں وائس آف امریکہ سے منسلک ہوا، تو میں اس وقت نہ صرف واشنگٹن بلکہ عمومی طور پر پورے ماحول سے نابلد تھا اور نووارد ہونے کی بنا پر نہ میرے پاس ٹرانسپورٹ کے وسائل تھے اور نہ ہی جگہوں کا پتہ تھا۔ لیکن، ان حالات میں نزاکت صاحب، بعض دوسرے احباب کی طرح، میری مدد کو آئے اور ہمارے لئے یہاں کی مصروف زندگی سے وقت نکالا۔ ان کا یہ رویہ سبھوں کے ساتھ ایسا ہی تھا۔ یقین نہیں آتا کہ وہ اب ہم میں نہیں رہے اور ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ گویا ایک باب تھا جو بند ہوگیا۔

لیکن مجھ سمیت اُن کے تمام دوست احباب اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ، اُن کی پرخلوص اور باغ و بہار شخصیت، اُن کی ہمدردی اور ساتھ ہی ان کے جمالیاتی ذوق اور تفنن طبع کے لیے اُنھیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

نزاکت صاحب کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو اپنے خاندان سے اُن کا اٹوٹ پیار اور روایتی رشتہ تھا۔ اُن کے بچے اُنھیں یاد کرکے یقینا ً افسردگی کے احساس سے دوچار ہوں گے، جو ایک فطری بات ہے کہ ایک محبت کرنے والے باپ کا سایہ ان کے سروں سے اٹھ گیا۔ تاہم، اُنھیں اس بات میں طمانیت محسوس ہوگی کہ اُن کے والد نے اُنھیں جو پیار دیا اور اُن کی جس طرح پرورش کی وہ ایک قیمتی ورثہ ہے۔

اُنھوں نے چار بچے اپنے سوگواروں میں چھوڑے ہیں، جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔

یہاں میں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اُن کے بچوں نے جس طرح ان کا ادب و احترام کیا اور جس طرح کی خدمت گذاری کی وہ فرمانبرداری اور سعادت مندی کی یقینا ً ایک اعلیٰ مثال ہے اور یہ بات یقینا ً اُن کے والدین کی تربیت کی عکاس ہے۔ اُن کی اہلیہ ایک نہایت سادہ، ملنسار اور تمام اہل خانہ کی مانند ایک نہایت روایتی اور پُرخلوص خاتون تھیں، اور تقریبا ً چھ سال قبل اُن کی وفات نزاکت صاحب کے لیے نہایت صدمے کا سبب بنی اور وہ ایک اعتبار سے شدید طور پر تنہائی محسوس کرنے لگے۔

مجھے بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ کوئی 14 یا 15 برس پہلے نزاکت صاحب اُس وقت شدید بیمار ہوئے جب اُن کے گردے تقریبا ً ناکارہ قرار دیے گئے اور ڈاکٹر نے اُنھیں فوری پیوند کاری کا مشورہ دیا۔ اب تلاش ہوئی عطیے کی۔ کسی بھی والد کے لیے اس سے بڑے فخر اور خوشی کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ اُن کے تمام بچوں نے اس کی ایک ساتھ پیش کش کردی۔ لیکن، قرعہ ٴ فال اُن کے اکلوتے بیٹے سعد کے حق میں نکلا۔

واشنگٹن کے ایک اسپتال میں اُن کے گردے کی پیوندکاری ہوئی اور وہ صحتیاب ہوگئے اور پھر حسب ِ عادت چاق چوبند نظر آنے لگے۔

نزاکت صاحب اپنی نجی زندگی میں ایک نہایت دین دار انسان بھی تھے۔ اور اُنھوں نے حق ِبندگی بھی خوب ادا کیا۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

XS
SM
MD
LG