رسائی کے لنکس

نیویارک میں شامی پناہ گزینوں کے لیے 'گرم جوشی'


شامی پناہ گزین (فائل فوٹو)
شامی پناہ گزین (فائل فوٹو)

ڈاکٹر جبار کہتے ہیں کہ یہاں پر یمن، مصر، فلسطین اور شام کے علاوہ اور بھی دیگر ملکوں سے آئے تارکین وطن آباد ہیں جو کہ مسلمان اور مسیحی پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

شام میں خانہ جنگی اور بدامنی سے فرار ہو کر پناہ کی تلاش میں ہزاروں لوگ یورپ سمیت دیگر ملکوں کا رخ کر رہے ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس معاملے کو لے کر امریکہ میں رائے عامہ منقسم ہے۔

امریکی شہر نیویارک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تارکین وطن پر مشتمل ہے اور اس شہر میں بسنے والی مختلف برادریوں نے ایسے اقدام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس سے یہاں آنے والے پناہ گزینوں کو خیرمقدم کا احساس ہو۔

محکمہ خارجہ کے مطابق اب تک امریکہ میں تقریباً 2200 شامی پناہ گزین داخل ہوئے جن میں میں 77 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ ان میں سے ایک قلیل تعداد میں لوگ نیویارک پہنچ سکے ہیں۔

لیکن شہر کے میئر بل ڈی بلاسیو نیویارک کو "تارکین وطن کا قابل فخر شہر" کہتے ہیں، ان کے بقول یہ شہر جنگ اور ایذا رسانیوں سے فرار ہو کر آنے والوں سے منہ نہیں موڑے گا۔ انھوں نے شہر کی مسلمان برادری کو انسداد دہشت گردی کی جنگ کا ایک اہم اتحادی قرار دیا۔

صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ میں شامل امیدواروں کی طرف سے بھی اس معاملے پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

ریپبلکن امیدوار ٹیڈ کروز اور جیب بش نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ صرف شام کے مسیحی پناہ گزینوں کو قبول کرے، مسلمانوں کو نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں نسبتاً سخت موقف کا اظہار کر چکے ہیں اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو ملک میں منتخب مساجد کی نگرانی کریں گے۔

عرب امریکن ایسوسی ایشن آف نیویارک اور داؤد مسجد کے سربراہ ڈاکٹر احمد جبار نے اس بیان کو غیر آئینی قرار دیا۔

"آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ پناہ گزینوں کو خوش آمدید نہیں کہیں گے۔ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے عقیدے کی بنیاد پر آپ انھیں اس لیے نہیں آنے دیں گے کہ وہ مسلمان ہیں۔"

داؤد مسجد بروکلین کے قلب میں واقع ہے۔ یہ ریاست نیویارک میں بننے والی پہلی مسجد ہے جو 1939ء میں قائم کی گئی۔ اب یہاں 270 سے زائد مساجد ہیں۔

ڈاکٹر جبار کہتے ہیں کہ یہاں پر یمن، مصر، فلسطین اور شام کے علاوہ اور بھی دیگر ملکوں سے آئے تارکین وطن آباد ہیں جو کہ مسلمان اور مسیحی پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

"ہمارے یہاں مختلف برادریوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں جو کہ تارکین وطن کو خوش آمدید کہی رہی ہیں اور انھیں اپنے ساتھ جگہہ دی رہی ہیں۔

ڈاکٹر جبار کی تنظیم تارکین وطن کے لیے مختلف سماجی سرگرمیاں انجام دیتی ہے جس میں انھیں انگریزی زبان سے متعلق آگاہی، طبی سہولت اور بچوں کے لیے نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد شامل ہے۔

یہاں آباد دیگر لوگ بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی پناہ گزین بچوں کے لیے شہر میں رہن سہن اور اس کے دھارے میں شامل ہونے کے لیے سالانہ پروگرام مرتب کرتی ہے۔

اس تنظیم سے وابستہ سارا روبوٹم کہتی ہیں کہ " گو کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اتنا مددگار نہیں ہے، لیکن انھیں معلوم ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ان کی قدر کی جاتی ہے اور جہاں ان میں یہ احساس پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اصل میں کون ہیں۔"

رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ امریکیوں کی نسبتاً زیادہ تعداد یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ کو مزید شامی پناہ گزینوں کو قبول نہیں کرنا چاہیے، جس کی وجہ سلامتی کے خدشات ہیں۔

XS
SM
MD
LG