رسائی کے لنکس

انوکھا لاڈلہ:158 انتخابات ہارنے والا امیدوار پھر میدان میں


پدما راجن اب تک 158 مرتبہ الیکشن لڑ چکے ہیں اور انہیں ایک بار بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ لیکن اس بات نے ان کے حوصلے کو بالکل پست نہیں کیا اور اس مرتبہ بھی وہ نہایت جوش و خروش سے نریندر مودی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں

بھارت میں سولہویں لوک سبھا کے انتخاب کے لئے نو مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل تیزی اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مستقبل کی حکومت چننا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن، انتخابات سے جڑی کچھ ایسی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں جن کو کیا بچے کیا بڑے ۔۔سب نے بہت انجوائے کیا۔

انتخاب لڑنے والے ہر امیدوار میں کچھ نہ کچھ خصوصیت ضرور ہوتی ہے جسے وہ اپنے ووٹرز سے ووٹ مانگنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ مثلاً، بہت سے بالی وڈ اسٹارز اپنے اسٹارڈم کی بنیاد پر انتخابی معرکہ لڑ رہے ہیں۔ لیکن، آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یہ پتا نہیں ہوگا کہ ایک امیدوار ایسا بھی ہے جس کی پہچان ہی’ ’الیکشن میں شکست“ بن گئی ہے۔

بھارتی ریاست تامل ناڈو کے رہائشی پدما راجن اب تک 158 مرتبہ الیکشن لڑ چکے ہیں اور انہیں ایک بار بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ لیکن اس بات نے ان کے حوصلوں کو بالکل پست نہیں کیا اور اس مرتبہ بھی وہ نہایت جوش و خروش سے بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے مقابلے میں بڑودا سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ٹائرپنکچر شاپ اور دیگر دکانوں کے مالک پدما راجن نے 1988ء میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تو لوگوں نے ان کا بہت مذاق اڑایا۔ لیکن، انہوں نے کسی بات کا برا نہیں منایا۔ پدما کے مطابق وہ عام آدمی یعنی جنتا کی آواز اور مسائل کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانا چاہتے تھے اور بھارتی جمہوریت کی خامیوں کو سامنے لانا بھی ان کا مقصد تھا۔

وہ پہلی بار الیکشن ہارے اور پھر ہارتے ہی چلے گئے۔ لیکن، الیکشن لڑنا نہیں چھوڑا۔

چھبیس سال سے زائد کے عرصے میں پدما راجن نے مقامی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لیا اور ان کو کبھی کسی عام امیدوار تو کبھی مشہور ناموں مثلاً اٹل بہاری واجپائی یا من موہن سنگھ کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

پدما راجن نے خوشگوار موڈ میں ’این ڈی ٹی و ی‘ کو بتایا کہ و ہ الیکشن جیتنے کے لئے نہیں لڑتے نہ ہی انتخابی نتیجے سے انہیں کوئی فرق پڑتا ہے۔اب تک وہ انتخاب لڑنے کے لئے ڈپوزٹ کی مد میں 12لاکھ روپے گنوا چکے ہیں۔ ان کا نام مقامی طور پر ریکارڈ رکھنے والی ’لمکا بک آف ریکارڈز‘ میں درج کیا گیا ہے۔

پدما کو سب سے زیادہ 6,273 ووٹ 2011 ءکے اسمبلی الیکشن میں ملے جو انہوں نے اپنے آبائی علاقے مترسے لڑاتھا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ بھی آزاد امیدوار کے طورپر اپنا سفر جاری رکھیں گے۔

سب سے زیادہ انتخابی شکستوں کا سامنا کرنے والے پدما راجن سے پہلے یہ ریکارڈ کاکا جوگندر سنگھ کے پاس تھا جو 300بار انتخابی شکست سے دوچار ہوئے۔ بابا جوگندرسنگھ کا انتقال 1998ء میں ہوا تھا۔
XS
SM
MD
LG