رسائی کے لنکس

جیوتی باسو چل بسے


بتایا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، بھارتیہ جنتا پارٹی کےقائد لعل کرشن آڈوانی سمیت نئی دہلی سے متعدد سیاسی پارٹیوں کے راہنما بھی کولکتے پہنچںر گے

مغربی بینگال کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور بھارت کے بزرگ کمیونسٹ لیڈر جیوتی باسو کا اتوار کے دِٕن تقریباً پونے بارہ بجے کولکتہ کے ایمری ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔

وہ پہلی جنوری سے یہاں زیرِ علاج تھے۔ گذشتہ دو دِنوں سے اُن کے جسم کے اہم اعضا نے کام کرنا بند کردیا تھا۔ میڈیکل کی اسطلاح میں ایسی صورتِ حال کو ‘ملٹی آرگن فیلئر’ کہتے ہیں۔

اُنھیں ڈاکٹروں نے لائف سپورٹ پر رکھاہوا تھا۔ ہفتے کی شام ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اُن کے بچنے کی امید کم ہے۔

وصیت کے مطابق اُن کی موت کے ساتھ ہی اُن کی آنکھوں کا عطیہ کردیا گیا۔ کہا جارہا ہے کہ اُن کی لاش بھی شہر کے ایک ہسپتال کو عطیہ کردی جائے گی۔ صوبے کے لاکھوں لوگ جیوتی باسو کو دیوانہ وار چاہتے ہیں۔ اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے اُن کے جسدِ خاکی کو بڑے سٹیڈیم میں رکھا جائے گا۔

اُن کی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یعنی ‘سی پی آئی ایم’ کے ترجمان نے بتایا کہ ملک کے مختلف علاقوں سے بھی کافی لوگ اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آئیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، بھارتیہ جنتا پارٹی کےقائد لعل کرشن آڈوانی سمیت نئی دہلی سے متعدد سیاسی پارٹیوں کے راہنما بھی کولکتے پہنچں گے۔

وزیرِ اعظم نے کہا ہےکہ باسو کی موت سے بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ وزیرِ داخلہ پی چدم برم ، جو کولکتہ ہی میں تھے، باسو کو بھارت کا عظیم سپوت قرار دیا۔

مغربی بینگال میں سی پی آئی ایم کی قیادت والا بایاں محاذ 1977ء میں اقددار میں آیا تھا اور لگاتار 33برسوں سے اقتدار میں ہے، جِس بات کا پورا کریڈٹ جیوتی باسو کے سر ہے۔

1977ء سے 2000ء تک وہ خود 23برسوں تک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ تھے، جو ایک ریکارڈ ہے۔

1996ء میں اُنھیں ملک کا وزیرِ اعظم بنانے کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم، اُن کی پارٹی نے اُنھیں یہ عہدہ قبول کرنے سے منع کردیا تھا۔ باسو نے پارٹی کے حکم کے سامنے سرجھکا دیا تھا لیکن وہ إِس سے بے حد دل برداشتہ تھے۔ بعد میں، اُنھوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ پارٹی نے اُنھیں بھارت کا وزیرِ اعظم بننے سے روک کر ایک تاریخی غلطی کی تھی۔

XS
SM
MD
LG