رسائی کے لنکس

بھارت کا جدید مدرسہ نظام


بھارت کا جدید مدرسہ نظام
بھارت کا جدید مدرسہ نظام

مسلم ممالک میں اسلامی تعلیم فراہم کرنے والے روایتی مدارس کو گزشتہ کچھ برسوں کے دوران خاصی منفی پذیرائی ملی ہے۔ خصوصاً پاکستان اور افغانستان میں واقع ایسے کئی مدارس پر مسلم بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں روایتی مدارس سے یکسر مختلف ایک بالکل نئے طرز کے مذہبی اسکولوں کا تصور پروان چڑھ رہا ہے، جہاں دی جانے والی تعلیم میں رواداری اور سیکولر ازم کو مذہبی روایات پر ترجیح دی جاتی ہے۔

بھارتی ریاست مغربی بنگال میں واقع ایک ایسا ہی ’ماڈل مدرسہ‘ دیگرمدارس سے خاصی ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ مغربی بنگال کے قصبے اورگرام میں واقع یہ اسلامی مدرسہ بھارت اور غالباً دنیا بھر کا وہ واحد مسلم مذہبی اسکول ہے جہاںمسلمان اقلیت میں ہیں۔

اس مدرسے میں پڑھنے والے60 فی صد طلبہ ہندو ہیں۔ قصبے کے قرب و جوار میں واقع دیہات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کےلئے اس مدرسے کا انتخاب یہاں دی جانے والی متوازن اور جدید تعلیم دیکھ کر کیا جس میں طلبہ کے درمیان مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں برتی جاتی۔

اس مدرسے کی کئی اور ایسی خصوصیات بھی ہیں جو اسے دیگر روایتی مسلم مدارس سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہاں مخلوط تعلیم رائج ہے اور لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس روم میں ایک ساتھ علم حاصل کرتے ہیں۔ مدرسے کی انتظامیہ کی جانب سے طالب علموں کو کتابیں اور دوپہر کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے جبکہ نصاب میں حساب، سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

مدرسے میں عربی زبان اور بنیادی اسلامی تعلیمات کا حصول ہر طالبِ علم پر لازم ہے، تاہم اس ضمن میں زیادہ تر توجہ مذہبی احکامات کی تدریس تک محدود ہے۔

اورگرام کے اس مدرسے کو2008ءمیں ریاستی حکومت کی جانب سے ماڈل مدرسہ کا درجہ دیا گیا۔ مغربی بنگال میں اس طرز کے 500 ماڈل مدارس موجود ہیں جنہیں سرکاری خزانے سے گرانٹ بھی دی جاتی ہے۔ یہ مدارس اسلامی دنیا خصوصاً افغانستان اور پاکستان میں موجود ان روایتی نظریاتی اسلامی مدرسوں کا ایک بہتر متبادل پیش کر رہے ہیں جن پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

اورگرام کے ماڈل مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر انور حسین کا کہنا ہے کہ اسکول میں زیرِ تعلیم ہندو اور مسلم طالب علموں کو خون ریزی اور تشدد سے بھری اپنی تاریخ سے ہٹ کر صرف انسانیت کی بنیاد پر اپنی شخصیت تعمیر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی میں مسلمانوں کی شرح 13 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ دونوں قومیں اس خطے میں کئی سو سال سے رہائش پذیر ہونے کے باوجود جداگانہ شناخت اور تہذیب کی امین ہیں اور اس بنیاد پر ان میں اکثر اوقات لڑائی جھگڑے بھی ہوتے رہے ہیں۔

انور حسین کا کہنا ہے کہ طلبہ کے والدین کو اکثر اوقات مدرسے ہونے والی تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے جن کا مقصد معاشرے میں رواداری اور ہندو مسلم تعلقات کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ان کے بقول ان سیمیناروں کے ذریعے مسلمانوں، خصوصاً مسلم خواتین کو ، جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ قدامت پسند ہوتی ہیں، دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ گفتگو کرنے اور گھلنے ملنے کے مواقع ملتے ہیں۔

انور حسین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں کے ذریعے ان کا مدرسہ معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ان کے بقول اپنی تدریسی و غیر تدریسی سرگرمیوں کے ذریعے ان کا مدرسہ بھارتی معاشرے میں مذہبی اور معاشی مساوات کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔

تاہم انور حسین کے اس مدرسے کو بھارت میں واقع دیگر رروایتی مسلم مدارس کی سخت مخالفت کا سامنا ہے جنہیں سب سے بڑا اعتراض مدرسے کی مخلوط تعلیم پر ہے۔

مدرسے کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ چونکہ عملی دنیا میں مرد و عورت کو ایک ساتھ زندگی گزارنا ہوتی ہے لہذا ضروری ہے کہ طلباء کو اس کی تربیت ابتدائی عمر سے ہی دینا شروع کردی جائے۔

مدرسہ کی اپنی کوئی مسجد نہیں بلکہ انتظامیہ کے مطابق طالب علموں کو نماز پڑھنے کے لیے گلی کے کونے پر واقع مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔

XS
SM
MD
LG