رسائی کے لنکس

بھارت: خواتین کی حفاظت کے لیے موبائل فونز پر 'پینک بٹن'


مواصلات اور ٹیکنالوجی کے وزیر نے ایک بیان میں کہا کہ جنوری 2017ء سے ملک میں فروخت ہونے والے تمام موبائل فونز کے لیے ایک پینیک بٹن کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جو صارفین کو پریشانی یا خطرے کی حالت میں مدد طلب کرنے کے قابل بنائے گا۔

بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات قابل تشویش ہیں لیکن اب حکومت نے ٹیکنالوجی کی ایک نئی اختراع یعنی خطرے کے بٹن کے ذریعے خواتین کے لیے جنسی حملوں سے بچاؤ کا آسان طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق حالیہ برسوں میں بھارت میں جنسی جرائم کے بڑھتے واقعات سے نمٹنے کے لیے بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے برس سے ملک میں فروخت ہونے والے تمام موبائل فونز میں ایک 'پینیک بٹن' ہو گا جس کے ذریعے مدد طلب کی جا سکے گی۔

مواصلات اور ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ جنوری 2017ء سے ملک میں فروخت ہونے والے تمام موبائل فونز کے لیے ایک پینیک بٹن کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جو صارفین کو پریشانی یا خطرے کی حالت میں مدد طلب کرنے کے قابل بنائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2018 ء سے ملک میں فروخت کیے جانے والے تمام موبائل فونز کے اندر ’’جی پی ایس‘‘ کا نظام نصب کرنا لازمی ہو گا جس سے مدد طلب کرنے والے کا محل وقوع تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کا واحد مقصد انسانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے اور اس کا اس سے بہتر استعمال کیا ہو گا کہ اسے خواتین کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے۔

مواصلات اور ٹیکنالوجی کی وزارت کا کہنا ہے کہ نئے موبائل فونز پر پانچ یا نو کا ہندسہ مسلسل دبائے رکھنے سے متعلقہ اداروں کو ایمرجنسی کال مل جائے گی۔

جبکہ اسمارٹ فونز کے ساتھ ہنگامی کال کرنے کے لیے پاور بٹن کو تیزی سے یکے بعد دیگرے تین مرتبہ دبانا ہو گا تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

گزشتہ ماہ حکومت نے ہنگامی مدد طلب کرنے کے لیے موبائل فونز میں 112 کو خطرے کے بٹن کے طور پر متعارف کرانے کا عندیہ دیا تھا بالکل ویسے ہی جس طرح برطانیہ میں ملک گیر ہنگامی بٹن 999 ہے اور امریکہ اور کینیڈا میں 911 خطرے کے بٹن ہیں، جسے دبانے والا شخص فوری طور پر پولیس، آگ بجھانے کا عملہ اور ایمبولینس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

بھارت چین کے بعد دنیا کی دوسری بڑی موبائل فونز کی مارکیٹ ہے جہاں موبائل فون کے ایک ارب سے زائد صارفین رہتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2012ء میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوبی علاقے میں ایک تیئس سالہ میڈیکل کی طالبہ کو بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور انتہائی بے رحمی سے زدوکوب کرنے کے بعد اسے چلتی بس سے پھینک دیا گیا تھا جب کہ طالبہ بعد میں زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی تھی اس واقعے کے بعد حکومت نے معاشرے مین خواتین کو تحفظ دلانے کے لیے متعدد اقدامات کئے ہیں۔

اگرچہ بھارت میں حقوق نسواں سے متعلق نئے قوانین کے تحت عورتوں کا پیچھا کرنا انھیں ہراساں کرنا جرم قرار دیا گیا ہے تاہم دارالحکومت نئی دہلی اور ممبئی میں خواتین کے خلاف جنسی حملوں کے واقعات کم نہیں ہوئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2014ء میں ملک بھر میں 36 ہزار سے زائد جنسی زیادتی کے واقعات درج کیے گئے جبکہ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اصل واقعات کے مقابلے میں کم ہے کیونکہ لڑکیوں کے گھر والے معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے اس طرح کے واقعات کی اطلاع نہیں کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG