رسائی کے لنکس

بھارت: الوداع، ٹیلی گرام سروس


بنگلور 15جولائی: تاریخ کا حصہ بننے سے کچھ ہی لمحے قبل، ٹیلی گرام دفتر کی تصویر
بنگلور 15جولائی: تاریخ کا حصہ بننے سے کچھ ہی لمحے قبل، ٹیلی گرام دفتر کی تصویر

بھارت میں، اِس سروس کا آغاز 1850ء میں کلکتہ اور ڈائمنڈ ہاربر کے درمیان تجرباتی بنیاد پر کیا گیا اور 1854ء میں اُسے عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا

بھارتی باشندوں کے لیے نسل در نسل اچھی اور بری خبروں کا نقیب، 163سال پرانی ٹیلی گرام سروس اتوار کے روز ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی۔ کسی زمانے میں مواصلات کا تیز ترین ذریعہ بنی رہنے والی سروس کو مرثیہ پڑھے بغیر دفن کر دکا گیا۔

البتہ، حکومتی اہل کاروں کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ آخری ٹیلی گرام کو یادگار طور پر محفوظ رکھا جائے گا۔

ٹیلی گرام کو عام زبان میں ’تار‘ یا ’وائر‘ کہا جاتا تھا۔

بھارت میں، اِس سروس کا آغاز 1850ء میں کلکتہ اور ڈائمنڈ ہاربر کے درمیان تجرباتی بنیاد پر کیا گیا اور 1854ء میں اُسے عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔

لیکن، بڑھتے خسارے کی وجہ سے حکومت کے مواصلاتی ادارے ’بی ایس این ایل‘ نے اِسے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس سروس کے ذریعے سالانہ 75لاکھ روپے کا ریوینیو حاصل ہوتا تھا۔ لیکن، اِسے چلانے کے لیے 100کروڑ روپے سے بھی زائد اخراجات آتے تھے۔

جِس وقت اِس سروس کا آغاز ہوا تھا، اِس کی زبردست اہمیت تھی۔ یہاں تک کہ ملک کی آزادی کی لڑائی لڑنے والے انقلابی برطانوی مواصلات کو ٹھپ کرنے کے لیے ٹیلی گرام لائن کاٹ دیا کرتے تھے۔ لیکن، آج انٹرنیٹ، موبائل، ایس ایم ایس، اِی میل اور سوشل میڈیا نے اِس کی لائن کاٹ دی ہے۔

پہلے لوگ ہنگامی حالات میں تار بھیجا کرتے تھے جو عموماً خوشی اور غم دونوں سے عبارت تھے۔

دیہی علاقوں میں تار ملنے کا مطلب کسی افسوس ناک خبر کا ملنا سمجھا جاتا تھا۔

فوجی جوان تعطیل لینے یا ڈیوٹی جوائن کرنے یا اپنے اہلِ خانہ کو کوئی خبر دینے کے لیے اِس ذریعے سے مواصلات کا سہارا لیتے تھے۔


بھارتی وزیر مواصلات نے گذشتہ ماہ تار سروس کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ’ہم ٹیلی گرام سروس کو پُرجوش الوداعیہ دے رہے ہیں‘۔

ملک میں 75ٹیلی گرام مراکز تھے۔ اُن کے 1000ملازمین کو دوسرے محکموں میں بھیج دیا گیا ہے۔


سنہ 1985میں یہ سروس اپنے عروج پر تھی، جب یومیہ چھ لاکھ تار بھیجے جاتے تھے۔

محکمہٴ ٹیلی گرام کے سینئر جنرل منیجر، شمیم اختر کے مطابق، اب صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ اُن کی تعداد گھٹ کر 4000یومیہ رہ گئی تھی۔

اتوار کے روز ٹیلی گرام دفاتر پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا جو یادگار کے طور پر اپنے عزیزوں کو ٹیلی گرام ارسال کرنے پہنچے۔ محکمے کے ذرائع کے مطابق، رات میں نو بجے آخری ٹیلی گرام دیا جائے گا اور اُسے اِسی شب ڈلیور کردیا جائے گا۔ باقی ٹیلی گرام پیر کے روز پہنچائے جائیں گے۔
  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG