رسائی کے لنکس

بھارت میں کشمیریوں پر مبینہ حملے، وزیرِ داخلہ کا انتباہ


راجناتھ سنگھ نے یہ بیان ملک کے بعض حصوں میں کشمیری طلبہ پر حالیہ حملوں اور ان کے ساتھ ساتھ کشمیری تاجروں اور دوسرے شہریوں کو ہراساں کئے جانے کے مُبینہ واقعات کے بعد دیا ہے

بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے جمعہ کو ملک کی مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے کہا کہ وہ کشمیریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اُٹھائیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ''کشمیری بھی ہندوستانی ہیں اور ان کے ساتھ ملک میں کسی طرح کا بھید بھاؤ یا غلط سلوک نہیں ہونا چاہئیے''۔

بھارتی وزیرِ داخلہ نے یہ بیان ملک کے بعض حصوں میں کشمیری طلبہ پر حالیہ حملوں اور ان کے ساتھ ساتھ کشمیری تاجروں اور دوسرے شہریوں کو ہراساں کئے جانے کے مُبینہ واقعات کے بعد دیا ہے۔

بھارت کی ریاست راجستھان کی میوڑ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم کشمیری طلبہ پر چتوڑ علاقے میں بُدھ کے روز مقامی لوگوں، جن میں مبینہ طور پر دائیں بازو کی ایک ہندو جماعت کے کارکن بھی شامل تھے، کئے گئے ایک حملے میں کئی ایک کے چوٹیں آئی تھیں۔ ان طلبہ پر حالیہ مہینوں کیا گیا اس طرح کا یہ دوسرا حملہ تھا۔

ان طلبہ نے بتایا تھا کہ حملہ آوروں نے اُن پر سنگباز ہونے کا الزام عائید کیا اور ان کی اس بات پر بے عزتی کی گئی کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں حال ہی میں کرائے گئے بھارتی پارلیمان کے ایک ضمنی انتخاب کے دوراں مقامی نوجوانوں نے بھارت کے وفاقی پولیس فورس 'سی آر پی ایف' کے ایک سپاہی پر فقرے کسے تھے۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔


اُدھر، ایک اور بھارتی ریاست اُتر پردیش کے میرٹھ علاقے میں ایسے بینر لگائے گئے ہیں جن میں وہاں مقیم کشمیری طالب علموں، تاجروں اور دوسرے شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر وہاں سے چلے جائیں۔ میرٹھ کی ایک مصروف سڑک پرتاپ پور بائی پاس کے کناروں پر کھڑی کی گئی ہورڈنگس پر ایک غیر معروف مقامی تنظیم، 'اُتر پردیش نو نرمان سینا' کی طرف سے درج کئے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ اگر کشمیری از خود علاقہ چھوڑ کر نہیں چلے جاتے تو انہیں میرٹھ بدر کرنے کے لئے 30 اپریل سے ایک 'ہلہ بول' مہم چلائی جائے گی۔

بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہزاروں کشمیری لڑکے اور لڑکیاں زیرِ تعلیم ہیں۔ نیز، نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد تجارت یا ملازمت کے سلسلے میں ان ریاستوں میں مقیم ہے۔

بھارتی وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ وہ ان واقعات اور اس طرح کے طرزِ عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''جو لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں انہیں یہ جان لینا چاہیئے کہ بھارت کی ترقی میں کشمیریوں کا اہم حصہ ہے''۔

انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت کی طرف سے تمام ریاستوں کو ان کے ہاں رہنے والے کشمیریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک ہدایت نامہ جاری کیا جا رہا ہے اور اب تک پیش آنے والے تمام واقعات کی تحقیقات ہوگی اور قصور وار افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔

بھارت کی 'مارکس وادی کمیو نسٹ پارٹی' اور بعض دوسری سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق تنظیموں نے بھی کشمیریوں پر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے۔

دریں اثنا، نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں جمعہ کی نماز کے بعد کئی علاقوں میں جن میں دارالحکومت سرینگر اور شمال مغربی شہر سوپور بھی شامل ہیں بھارت مخالف مظاہروں کے دوراں تشدد بھڑک اُٹھا۔ حفاظتی دستوں نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں کی ٹولیوں کو منتشر کرنے کے لئے اشک آور گیس چھوڑی اور بانس کے ڈنڈے چلائے، جن میں، بتایا جاتا ہے کہ متعدد افراد کے زخمی ہوئے۔

وادئ کشمیر اس ماہ کی نو تاریخ کو بھارتی پارلیمان کے لئے کرائے گئے ایک ضمنی انتخاب کے دوراں پُرتشدد مظاہرین پر حفاظتی دستوں کے مبینہ فائرنگ میں ایک بارہ سالہ لڑکے سمیت نو افراد کے مارے جانے کے بعد سے ایک مرتبہ پھر شدید ہل چل سے گزر رہی ہے۔

اس ہفتے وادئ کشمیر کے تمام دس اضلاع میں طالب علموں نے پندرہ اپریل کے روز جنوبی شہر پلوامہ کے ایک کالج میں ان کے ساتھیوں پر حفاظتی دستوں کی طرف سے کی گئی مبینہ زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG