رسائی کے لنکس

انڈیانا ریاست میں تارکین وطن سے متعلق رائے عامہ منقسم


شامی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والا ایک گروپ
شامی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والا ایک گروپ

پیرس کے حملے کے فوری بعد گورنر مائیک پنس نے کہا کہ انڈیانا کی ریاست سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر شامی تارکین وطن کو قبول نہیں کر سکتی ہے۔

دنیا میں شورش اور جنگ کا شکار ملکوں اور خصوصاً شام سے نقل مکانی کرنے والے تارکین وطن اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے بچنے کے لیے روازنہ ہزاروں کی تعداد میں مغربی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان تارکین وطن میں سے ایک کثیر تعداد کا تعلق شام سے ہے جہاں گزشتہ چار سال سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑے پڑے اور ان میں ایک بڑی تعداد اپنے ملک سے باہر مقیم ہے اور مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم پیرس میں ہوئے مہلک حملوں کے بعد شام کے تارکین وطن کے لیے حالات مشکل ہو گئے ہیں۔

امریکہ کی شمال وسطیٰ ریاست انڈیانا کے شہر فورٹ وائن میں میانمار کے5,000 تارکین وطن مقیم ہیں جو اپنی زندگی کو نئے معاشرے کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ان میں بو سے وا کا خاندان بھی شامل ہے جو امریکہ آمد سے پہلے چھ سال کی عمرتک تھائی لینڈ اور میانمار کی سرحد پر واقع تارکین وطن کے لیے قائم کیمپ میں مقیم رہا۔

اس کے والدین اسی کیمپ میں 27 سال تک بطور مزدور کام کرتے رہے۔ بے ۔ اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ کیمپ میں تشدد و خوف کا شکار رہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ امریکہ آنے کے بعد اب انہیں کسی بات سے ڈر نہیں لگتا ہے۔ یہاں انہیں خوارک وافر مقدار میں میسر ہے اور وہ گھر میں اپنی مادری زبان کیرن میں گفتگو کرتے ہیں لیکن ان کا بیٹا بے سو ایک مقامی اسکول میں پہلی جماعت میں پڑھتا ہے جہاں وہ انگریزی بھی سیکھ رہا ہے۔

اس کی والدہ شیر کو مو ایک کارفیکڑی میں جز وقتی طور پر کام کرتی ہیں اور امریکہ آنے کے ایک سال کے بعد ان کی انگریزی میں شدبدھ کم ہے تاہم ان کے شوہر پرلر انگریزی کے کلاسز لے رہے ہیں۔

فورٹ وائن میں اسکولوں میں 80 مختلف زبانیں بولنے والے پڑھتے ہیں اور یہ شہر تارکین وطن کا کھلے دل کے ساتھ خیر مقدم کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تاہم پیرس کے حملے کے فوری بعد گورنر مائیک پنس نے کہا کہ انڈیانا کی ریاست سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر شامی تارکین وطن کو قبول نہیں کر سکتی ہے۔

اس بیان کے بعد فورٹ وائن کی کاؤنٹی میں لوگوں نے احتجاج کیا۔ ان کا موقف ہے کہ تارکین وطن کے چھان بین کا طریقہ کار امریکہ کو محفوظ رکھنے لیے کافی ہے۔ امریکہ کی شہری حقوق کی آزادی کی ایک یونین نے گورنر کے بیان پر ان کے خلاف ایک وفاقی مقدمہ داخل کرنے کی تیاری کر رہی ہے، اس کا موقف ہے کہ انڈیانا کی ریاست ایک ملک کے تارکین وطن کو قبول کرنے کے ساتھ دوسرے ملکوں کے تارکین وطن کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتی ہے۔

تاہم فورٹ وائن کے شہر میں تارکین وطن کے متعلق رائے منقسم ہے۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ صدر براک اوباما نے کتنے شامی تارکین وطن کو قبول کرنے کی اجازت دی ہے شاید 10,000ہو لیکن یہ امر اس کے لیے پریشان کا باعث نہیں ہے لیکن ان لوگوں میں دہشت گردوں کے شامل ہونے کا سوال موجود ہے۔

تاہم ایک شخص جو سکیورٹی کے شعبے سے وابستہ رہا ہے، کا کہنا ہے کہ " ہر ایک کو چھان بین کے بعد آنے دیں۔ یہ کرنا بہت ہی آسان ہے ہر ایک کے بارے میں مکمل چھان بین کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف کریں اور چوکس رہیں اور ہر کوئی محفوظ رہے گا"۔

دوسری طرف فورٹ وائن میں شامی پناہ گزینوں کے معاملات سے متعلق ایک گروپ شامی پناہ گزینوں کے متعلق اس تاثر کو تبدیل کرنے اور ان کے لیے رہائش کا انتظام کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سرکاری سطح پر یہ تنازع آئندہ چھ ماہ میں ختم ہو جائے گا اور 2016 میں انڈیانا کی ریاست میں شامی پناہ گزینوں کو قبول کر لیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG