رسائی کے لنکس

کل بھوشن کو سزائے موت سنائے جانے پر بھارت کا سخت رد عمل


فائل
فائل

سکریٹری خارجہ، جے شنکر نے عبد الباسط کی موجودگی میں کہا کہ کل بھوشن کو موت کی سزا سنائے جانے کے سلسلے میں جو عدالتی کارروائی ہوئی ہے، وہ بقول ان کے، ”مضحکہ خیز“ ہے۔ وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ”اگر کل بھوشن کو پھانسی دی جاتی ہے، تو ہم اسے پہلے سے سوچا سمجھا قتل تصور کریں گے“

بھارت نے پاکستان کی فوجی عدالت کے ذریعے مبینہ بھارتی جاسوس کل بھوشن جادھو کو سزائے موت سنائے جانے پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاج کیا ہے۔

سکریٹری خارجہ، جے شنکر نے عبد الباسط کی موجودگی میں کہا کہ کل بھوشن کو موت کی سزا سنائے جانے کے سلسلے میں جو عدالتی کارروائی ہوئی ہے وہ بقول ان کے ”مضحکہ خیز“ ہے۔ وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ”اگر کل بھوشن کو پھانسی دی جاتی ہے، تو ہم اسے پہلے سے سوچا سمجھا قتل تصور کریں گے“۔

وزارت خارجہ نے مزید کہا ہے کہ ’’جادھو کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ ہمارے ہائی کمیشن کو اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی کہ کل بھوشن کے خلاف عدالتی کارروائی چل رہی ہے۔ بھارت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ان بارہ پاکستانی قیدیوں کو واپس نہ کرنے کا فیصلہ کیا جن کو ایک روز بعد پاکستان واپس بھیجا جانا تھا‘‘۔

دریں اثنا، یہاں کے تجزیہ کاروں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ’’اس فیصلے کے بعد دونوں ملکوں کے رشتوں پر برا اثر پڑے گا‘‘۔

ایک سینئر تجزیہ کار اجے کمار نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”جہاں تک اس کیس کی بات ہے تو پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ کل بھوشن کے خلاف ان کی فوج کے پاس جو کاغذات ہیں وہ محض بیانات ہیں۔ حکومت کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ تو پھر اچانک ان کو سزا سنانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح 2018 میں ہونے والے پاکستانی الیکشن سے جڑا ہوا ہے“۔

خیال رہے کہ اجے کمار نے سرتاج عزیز کے جس بیان کا حوالہ دیا ہے اسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔

اجے کمار نے مزید کہا کہ ”بھارت نے پاکستان سے کئی مرتبہ درخواست کی تھی کہ وہ کل بھوشن جادھو سے ہمارے سفارتکاروں کو ملنے کی اجازت دے۔ لیکن اس نے اجازت نہیں دی“۔

اس سلسلے میں، پاکستان کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ’’کسی دہشت گرد سے قونصلر رسائی کی سہولت نہیں دی جاتی؛ اور اسی لیے کل بھوشن سے بھارت سفارتی کاروں کو ملنے نہیں دیا گیا‘‘۔

ایک دوسرے تجزیہ کار، آلوک موہن نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ”کل بھوشن کو سزا دینے سے ان عناصر کو تقویت ملے گی جو دونوں ملکوں کے رشتوں کو خراب کروانا چاہتے ہیں“۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیئے جس سے باہمی رشتے خراب ہوں، بلکہ ان دونوں کو اپنے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیئے۔

اس بارے میں یہاں کے نیوز چینلوں پر مباحثے شروع ہو چکے ہیں اور شدت پسند تجزیہ کار پاکستان کو سخت پیغام دینے کی وکالت کر رہے ہیں۔ سابق سفارت کار این این جھا کے مطابق ’’پاکستان کی فوجی عدالت کا یہ فیصلہ غیر متوقع اور بہت سخت ہے‘‘۔

خیال رہے کہ پاکستان نے کل بھوشن کا ایک اقبالیہ بیان جاری کیا تھا جسے یہاں کے تجزیہ کاروں نے ’’دباؤ میں دیا گیا بیان‘‘ قرار دیا تھا۔ بھارت نے اس کا اعتراف تو کیا ہے کہ کل بھوشن بھارتی بحریہ میں تھے۔ لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت کا اصرار ہے کہ وہ ایک کاروباری ہیں اور ایران سے کاروبار کرتے رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG