رسائی کے لنکس

’’انڈونیشیا چین سے قریبی تعلقات قائم کرے‘‘


’’انڈونیشیا چین سے قریبی تعلقات قائم کرے‘‘
’’انڈونیشیا چین سے قریبی تعلقات قائم کرے‘‘

انڈونیشیا کے بعض اسلامی گروپوں کا کہنا ہے کہ ایشیا میں امریکہ کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے کے لیے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے جانے چاہئیں۔ انڈونیشیا کے سیاسی تجزیہ کاروں اور مذہبی لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان گروپوں کے رویے سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی مخالفت اور ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔

اسلامی گروپ حزب التحریر کی انڈونیشین ویب سائٹ پر ایک وڈیو دکھایا جاتا ہے جو ڈرامائی میوزک اور بموں اور گولیوں کی آوازوں اور عراق اور افغانستان میں جاری جنگ کے مناظر سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے فوراً بعد انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما کی ایک تقریر کا ٹکڑا دکھایا گیا ہے۔

امریکی صدر کہہ رہے ہیں’’جو ممالک اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں، وہ ہمارے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اسرائیل کو سرحدی محاذ پر ہمیشہ ان خطرات کا سامنا رہا ہے ۔ میں وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کی سلامتی کے غیر متزلزل عزم کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔‘‘

اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ انڈونیشیا میں حزب التحریر کے ترجمان، اسمٰعیل Yusanto کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم کے خیال میں امریکہ مسلمان دنیا کا دوست نہیں ہے ۔ وہ ا ب تک عراق اور افغانستان جیسے ملکوں میں ظلم کر رہا ہے اور انہیں اپنی نو آبادی بنا رہا ہے ۔

حیرت کی بات یہ ہے Yusanto کی تنظیم چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی حامی ہے جب کہ چین پر کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے جو خدا کی قائل نہیں۔ Yusanto یہ بھی کہتے ہیں کہ چین خود اپنی مسلمان اقلیت پر ظلم کرتا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ سٹریٹیجک اتحاد سے ایشیا میں امریکہ کے اثر و رسوخ کا جواب دیا جا سکے گا۔چین اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اور اس طرح دنیامیں طاقت کا توازن قائم ہو جائے گا۔

Juwono Sudarsono سابق وزیرِ دفاع ہیں اور آج کل یونیورسٹی آف انڈونیشیا میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ حزب التحریر چھوٹی سی تنظیم ہے اور اس کی سیاسی طاقت بہت کم ہے لیکن اس کا پیغام انڈونیشیا کے بہت سے گروپوں کے لیے پُر کشش بنتا جا رہا ہے۔ یہ تنظیم پورے ایشیا میں مغربی ملکوں کے غلبے کے خلاف مقبول ہو رہی ہے۔یہ نہ صرف اسلامی گروپوں میں بلکہ کچھ سیکولر گروپوں میں بھی مقبول ہے۔

Din Syamsuddin انڈونیشیا کی دوسری سب سے بڑی اسلامی تنظیم محمدیہ کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال قاہرہ میں صدر اوباما کی تقریر سے جس میں انھوں نے باہم احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر مسلمان دنیا کے ساتھ ایک نئے تعلق کی بات کی تھی، بہت سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔ لیکن ، اگرچہ مسٹر اوباما مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے مذاکرات کر رہےہیں اور انھوں نے عراق سے فوجیں واپس بلانے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے قول و فعل میں مطابقت نہیں۔

Din Syamsuddin کا کہنا ہے’’ہم میں سے کچھ لوگ صورتِ حال کو اور فوجوں کی واپسی کے شیڈول کو سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی صدربُش اور صدر اوباما کے عہدِ صدارت کے دوران امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے ۔‘‘

دوسری طرف چین کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ انڈونیشیا کی معیشت میں تعمیری کردار ادا کر رہا ہے۔ انڈونیشین سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کا کہنا ہے کہ چین،انڈونیشیا میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس سال اب تک چین کو انڈونیشیا کی بر آمدات میں 90 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے ۔چین کے بار ے میں یہ روز افزوں مثبت رویہ ماضی کے بالکل بر عکس ہے۔

1960 کی دہائی میں بہت سے لوگ چین سے خطرہ محسوس کرتے تھے کیوں کہ وہ انڈونیشیا کے کمیونسٹ باغیوں کو مسلح کر رہا تھا۔ عام لوگوں میں انڈونیشیا میں مالی طور پر خوشحال چینی اقلیت کے بارے میں بھی ناراضگی پائی جاتی تھی۔ سہارتو کے عہدِ حکومت میں چینی تحریروں اور کلچر کا سرِ عام مظاہرہ غیر قانونی تھا ۔ اب چین کے بارے میں مخالفانہ جذبات بڑی حد تک ختم ہو چکے ہیں اور یہ احساس فروغ پا رہا ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے ۔

Sudarsono کہتے ہیں کہ چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کے باوجود تاریخی اعتبار سے امریکہ کے پیسیفک فلیٹ نے بحری گذر گاہوں کو تجارت کے لیے کھلا رکھا ہے اور چین کو یا کسی اور بڑی طاقت کو فوجی طاقت کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دیا ہے ۔

جہاں تک سیاسی محاذ کا تعلق ہے اسلامی تنظیم محمدیہ کے Syamsuddin کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں اب جو نظام قائم ہے وہ چین کے آمرانہ نظامِ حکومت سے بہتر ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ مِل کر دنیا میں جمہوریت کو فروغ دے لیکن اسے کسی پر مسلط نہ کرے۔

وہ کہتے ہیں’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک مسلمان دنیا میں جمہوریت کی قابلِ تقلید مثال بن جائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور انڈونیشیا مسلمان ملکوں سمیت دنیا بھر میں جمہوریت کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے وقت ہمیں دوسرے ملکوں کے کلچر اور ان کے سماجی اور سیاسی نظام کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے اور ان پر جمہوریت مسلط نہیں کرنی چاہیئے ۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھ رہے ہیں پھر بھی انڈونیشیا کو چاہیئے کہ وہ مشترکہ دلچسپی کے مسائل کے بارے میں امریکہ کے ساتھ اپنے اختلافات پر بات چیت جاری رکھے ۔

XS
SM
MD
LG