رسائی کے لنکس

پاکستانی سرحد کے قریب آٹھ ایرانی محافظ ہلاک


گزشتہ سال اغوا ہونے والے ایرانی گارڈز رہائی کے بعد عہدیداروں کے ساتھ موجود ہیں
گزشتہ سال اغوا ہونے والے ایرانی گارڈز رہائی کے بعد عہدیداروں کے ساتھ موجود ہیں

نائب صوبائی گورنر علی اصغر میر شکاری سے منسوب خبر میں بتایا گیا کہ منگل کو سرحد پار پاکستانی علاقے سے مسلح افراد ایرانی حدود میں داخل ہوئے جن کی سرحدی محفاظوں سے جھڑپ ہوئی۔

ایران کے ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ پاکستان کی سرحد کے قریب ایرانی صوبہ سیستان-بلوچستان میں مبینہ طور پر سرحد پار سے آنے والے مسلح افراد کی سرحدی محفاظوں کے درمیان جھڑپ سے آٹھ اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔

سرکاری خبررساں ایجنسی "ارنا" نے نائب صوبائی گورنر علی اصغر میر شکاری سے منسوب خبر میں بتایا کہ منگل کو سرحد پار پاکستانی علاقے سے مسلح افراد ایرانی حدود میں داخل ہوئے جن کی سرحدی محفاظوں سے جھڑپ ہوئی۔

ان کے بقول واقعے میں آٹھ سرحدی محافظ ہلاک ہوئے جب کہ حملہ آور واپس پاکستانی علاقے کی طرف فرار ہو گئے۔

پاکستان کی طرف سے ایرانی عہدیدار کے اس دعوے پر کوئی ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً نو سو کلومیٹر طویل سرحد ہے اور اکثر منشیات کے اسمگلروں اور جرائم پیشہ عناصر کی یہاں پاکستان اور ایران کے سکیورٹی اہلکاروں سے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

سرحدی علاقوں میں بعض کالعدم شدت پسند تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔

ماضی میں ایرانی عہدیداروں کی طرف سے یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ پاکستانی سرحد عبور کر کے مسلح افراد پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں۔

گزشتہ سال ہی ایک ایسے واقعے میں ایرانی عہدیداروں نے اپنے چار اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری مبینہ طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردوں پر عائد کرتے ہوئے اسلام آباد سے اس ضمن میں کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان کا موقف تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی پالیسی پر کاربند ہے اور اس واقعے سے متعلق اگر ایران کے پاس شواہد ہوں تو وہ اس کا تبادلہ کرے۔

اس کے بعد دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کی ملاقاتوں میں سرحدوں پر پیش آنے والے واقعات کے تدارک کے لیے انٹیلی جنس معلومات کے تبادلوں پر بھی اتفاق ہوا تھا۔

سینیئر تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور ایران کی سرحد پر پیش آنے والے واقعات گو کہ تلخی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن اعلیٰ سطحی رابطوں میں انھیں حل کر لیا جاتا ہے جس سے یہ تعلقات پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت رونما ہوا ہے جب ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف بدھ کو سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG