رسائی کے لنکس

ایران: جوہری تنازع کے سفارتی حل کے امکانات


ایران: جوہری تنازع کے سفارتی حل کے امکانات
ایران: جوہری تنازع کے سفارتی حل کے امکانات

حالیہ ہفتوں میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے جنگ کی باتوں میں تیزی آ گئی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران کو نیوکلیئر بم کی تیاری سے باز رکھنے کے لیے فوجی کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔ جنگ و جدل کی ان تیز و تند باتوں کے باوجود تمام فریق اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس بحران کا کوئی سفارتی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی جنگی جہاز کارروائی کے لیے تیار ہیں اور ایران خلیجِ فارس کے نزدیک جنگی مشقیں شروع کر رہا ہے۔ جب کہ امریکہ کا کیل کانٹے سے لیس طیارہ بردار جہاز ایران کے ساحل کے نزدیک سفر کر رہا ہے۔

تہران اور تل ابیب ایک دوسرے پر قتل کی سازش کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا تازہ ترین مشن ناکام ہو گیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں جنگ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کے برخلاف، اعلیٰ عہدے دار کہتے ہیں کہ فوجی تصادم سے بچنے کے لیے سفارتکاری کا راستہ موجود ہے۔ ایران کے وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے دو متبادل راستے ہیں۔۔ بات چیت یا تصادم۔

’’اسلامی جمہوریۂ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کی پُرامن نوعیت کے بارے میں ہمیشہ پُر اعتماد رہا، اور اس نے ہمیشہ پہلے متبادل راستے یعنی بات چیت پر اصرار کیا ہے‘‘۔

امریکہ وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ ’’سفارتکاری کے لیے وقت اور جگہ موجود ہے۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ایران اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے‘‘۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت مفلوج ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اور حال ہی میں نیوکلیئر امور کے بارے میں ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار نے کہا کہ تہران مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ ’’ہم ایرانی حکومت کی طرف سے اس قسم کے جواب کا انتظار کرتے رہے ہیں اور اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں، تو یہ ایسی کوشش ہونی چاہیئے جو مسلسل جاری رہے اور جس کے نتائج بر آمد ہوں‘‘۔

گزشتہ سال ترکی میں مغربی ملکوں اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات دوبارہ شروع کیے گئے تو ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔

رینڈ کارپوریشن کے جیمز ڈوبنز کہتے ہیں کہ ’’مذاکرات کی بہت زیادہ چھان پھٹک کی جا رہی ہے، پریس میں ان پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، میڈیا میں ان کا ذکر بہت زیادہ ہو رہا ہے، اور دونوں فریقوں پر اتنی زیادہ سیاسی توجہ دی جا رہی ہے کہ کوئی پیش رفت ہونا مشکل نظر آتا ہے‘‘۔

مغربی ملکوں کی پابندیوں کے باوجود، ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام پر عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ وہ بیرونی دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ لیکن ملک کے رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کو ایٹم بم بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

’’ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں، اور ہمارے خیال میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے حصول سے طاقت حاصل نہیں ہوتی، اور ہم نیوکلیئر اسلحہ پر انحصار ختم کر سکتے ہیں۔ انشاء اللہ ہمارا ملک ایسا ہی کرے گا‘‘۔

اسرائیل اور امریکہ کہتے ہیں کہ اگر سفارتکاری اور پابندیاں موئثر ثابت نہیں ہوتیں، تو فوجی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے سکیورٹی کے ماہر جم واش کہتے ہیں کہ فوجی کارروائی سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔

’’اگر حملہ کیا گیا تو اس کے بعد ایران یقینی طور پر نیوکلیئر اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنا چاہے گا‘‘۔

مغربی ممالک ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں دو راستوں والا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ پابندیوں کو روز بروز سخت کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے سفارتی کوششوں کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG