رسائی کے لنکس

ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری ، جدید میزائل ٹیکنالوجی کے حصول اوربیرون ملک انتہاپسندوں کی مدد میں مصروف ہے: پنٹاگان


ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری ، جدید میزائل ٹیکنالوجی کے حصول اوربیرون ملک انتہاپسندوں کی مدد میں مصروف ہے: پنٹاگان
ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری ، جدید میزائل ٹیکنالوجی کے حصول اوربیرون ملک انتہاپسندوں کی مدد میں مصروف ہے: پنٹاگان

ایران کی فوجی قوت سے متعلق امریکی وزارت دفاع کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل کی صلاحیت کے حصول کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے ،اور وہ دنیا کے مختلف حصوں میں موجود متشدد تنظیموں کی سرپرستی کررہاہے۔لیکن ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے امریکہ پر براہ راست حملے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں وہاں کی موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

ایران کی فوجی صلاحیت پر وزارت دفاع کی پہلی سرکاری رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ تہران حکومت کا بنیادی نصب العین اپنی بقا ہے، جس کے لیے وہاں کی قیادت نے بنیادی فوجی دفاعی حکمت عملی کاطریقہ اختیار کیا ہے، جس میں جدید ترین ہتھیاروں کے حملوں کا سراغ لگانے اور انہیں روکنے کے لیے ہائی ٹیک دفاعی آلات پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

لیکن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنانے کے لیے اپناکام جاری رکھے ہوئے ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کو اپنے یورینیم افزدہ کرنے کی مرکزی تنصیب میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم توقع ہے کہ اگلے سال اس کی ایک نئی تنصیب کام شروع کرے گی۔ رپورٹ میں اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا کہ ایران کب تک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے قابل ہوسکے گا لیکن امریکی عہدے دار،بشمول ڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی لیفٹیننٹ جنرل رونلڈ برگس کہتے ہیں کہ ایسا جلد ممکن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک عام رائے کے مطابق ، سنٹری فیوجز کی جتنی تعداد کا ہمیں علم ہے، ہمارے خیال میں یہ ایک سال میں ممکن ہے۔

لیکن جنرل برگس یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس ادارے یہ نہیں جانتے کہ آیا ایرانی قیادت نے جوہری ہتھیار بنانے کا باضابطہ طورپر کوئی فیصلہ کرلیا ہے ۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران بیلسٹک میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے لیے بھی سخت جدوجہد کررہاہے اور اس نے دوہزار کلومیٹر تک مارکرنے والا نیا میزائل بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے اپنے میزائلوں کی ہدف کو درستگی سے نشانہ بنانے اور زیادہ وزن لے جانے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے ۔ رپورٹ میں یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ کچھ بیرونی مدد ملنے کی صورت میں ایران 2015ء تک امریکہ تک مارکرنے والے میزائل بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتاہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایران کے پاس کم فاصلے تک مارکرنے والے ایسے میزائل پہلے سے ہی موجود ہیں جو روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ہمسایہ ملکوں اور علاقے میں موجود امریکی فوجیوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے اپنے میزائل لانچ کرنے کے مقامات کے حفاظتی نظام کو بہتر بنالیاہے۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایرانی حکومت انتہاپسندتنظیموں کے ذریعے بیرون ملک، بالخصوص مشرق وسطیٰ میں تخریب کاری کی اپنی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے۔لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی ایجنسیوں نے حالیہ برسوں میں دوسرے مقامات ، حتی ٰ کہ وینزویلا جیسے دوردراز کے علاقوں تک کارروائیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔

پچھلے ہفتے امریکی سینٹ کی کمیٹی میں ایک سماعت کے دوران لیفٹیننٹ جنرل برگس نے ایران کی بیرون ملک سرگرمیوں کو موضوع بناتے ہوئے کہا تھاکہ اس نے دوسرے ملکوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں خوف زدہ رکھنے کے لیے دہشت گروں اور نیم فوجی تنظیموں کی فعال سرپرستی کی حکمت عملی کو ایک بنیادی اصول کے طورپر اختیار کررکھا ہے۔ جس میں عراق میں منتخب شیعہ عسکریت پسندوں اور افغانستان میں طالبان کو لیتھل ایسڈ کی فراہمی شامل ہے۔

جنرل برگس نے کہا کہ عراق میں اس طرح کی سرگرمیاں نیم خود مختار قدس فورس کے لیے چلائی جاتی ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس فورس کی کتنی کارروائیاں اس حکومت کی ہدایت پر کی جاتی ہیں۔لیکن جنرل برگس کا کہنا ہے کہ اس کی کارروائیاں کلی طورپر اس کی اپنی نہیں ہوتیں۔

وزارت دفاع کی رپورٹ میں کہا گیا ہے قدس فورس عراق میں اور کچھ کم سطح پرافغانستان میں شورش پسندی کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اور یہ سب اس کے باوجود کیا جارہاہے کہ ایرانی حکومت ان ممالک میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومتوں سے حکومت کی سطح پر اپنے تعلقات میں بڑھا رہی ہے۔

یہ کانگریس کو درکار اپنی نوعیت کی ایک پہلی رپورٹ ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے پچھلے سال اپنے دفاع پر 9.6 ارب ڈالر کے مساوی رقم خرچ کی تھی جو امریکی دفاعی اخراجات کے دو فی صد سے کم ہے۔لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اخراجات میں ایجنسیوں کی کارروائیوں کے اخراجات شامل نہیں ہیں، جیسا کہ قدس فورس وغیرہ پر کیے جانے والے اخراجات۔

XS
SM
MD
LG