رسائی کے لنکس

عراق کا سعودی سفیر کے بیان پر احتجاج


عراق میں حشد الشعبی سے تعلق رکھنے والا ایک جنگجو دیوار پر داعش کے جھنڈے کے سامنے کھڑا ہے۔ (فائل فوٹو)
عراق میں حشد الشعبی سے تعلق رکھنے والا ایک جنگجو دیوار پر داعش کے جھنڈے کے سامنے کھڑا ہے۔ (فائل فوٹو)

ہفتے کو عراق کے السومريہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں سعودی سفیر ثامر ال صبحان نے حشد الشعبی اتحاد کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جو ایران کے حمایت یافتہ نیم فوجی شیعہ گروہوں پر مشتمل ہے

عراق نے اتوار کو سعودی عرب کے نئے سفیر کو ان کے اس بیان پر طلب کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں اور داعش کے خلاف جنگ کو عراقی فوج اور سرکاری سکیورٹی فورسز کے ہاتھ میں رہنا چائیے۔

عراق کی طرف سے سعودی سفیر کی طلبی علاقے میں سنی اور شیعہ طاقتوں کے درمیان گہری مخاصمت کو ظاہر کرتی ہے۔ ریاض نے گزشتہ ماہ ہی بغداد میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولا ہے جو عراق کی طرف سے 1990 میں کویت پر حملے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔

ہفتے کو عراق کے السومريہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں سعودی سفیر ثامر ال صبحان نے حشد الشعبی اتحاد کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا داعش کے سنی شدت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ یہ اتحاد ایران کے حمایت یافتہ نیم فوجی شیعہ گروہوں پر مشتمل ہے

انہوں نے کہا تھا کہ کردوں اور سنی اکثریتی انبار صوبے نے حشد الشعبی کو اپنے علاقوں میں نہیں آنے دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی معاشرہ اس تنظیم کو قبول نہیں کرتا۔

عراق کی وزارت خارجہ نے اس بیان کو ’’سفارتی آداب کی خلاف ورزی اور غلط معلومات پر مبنی‘‘ قرار دیا تھا۔

’’حشد الشعبی دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور ملک کی خود مختاری کی حفاظت کر رہا ہے اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی سرپرستی اور کمان کے تحت مصروف عمل ہے۔‘‘

ایک علیحدہ بیان میں وزارت نے کہا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ بحرین میں ایک کانفرنس کے موقع پر اتوار کو ملے اور صبحان کے بیان کو مسترد کر دیا۔

’’سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ بیانات برادر ملک عراق کے بارے میں سعودی عرب کے سرکاری مؤقف کو ظاہر نہیں کرتے۔‘‘

تاہم سعودی عرب کے سرکاری خبررساں اداروں نے وزیر کے بیان کے بارے میں کوئی فوری خبر نہیں دی۔

اس سے قبل عراق کے شیعہ قانون سازوں نے سعودی سفیر پر عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا جس میں مشرقی صوبہ ديالى میں تشدد کے حالیہ واقعات بھی شامل ہیں جہاں داعش کی طرف سے شیعہ ملیشیا جنگجوؤں پر حملوں کے جواب میں سنی مسجدوں اور رہائشیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

بغداد میں سعودی سفارتخانے کے کھلنے پر اس امید کا اظہار کیا گیا تھا کہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف زیادہ قریبی تعاون ممکن ہو سکے گا۔

مگر اسی دوران سعودی عرب کی طرف سے ایک شیعہ عالم دین کو سزائے موت دیے جانے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG