رسائی کے لنکس

اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں کے عملے کا احتجاج


ہیلتھ رسک الاؤنس کی منظوری پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2012 میں دی گئی تھی، مگر حکومت نے موجودہ مالی سال میں اسے منجمد کر دیا ہے جس پر طبی عملے کا احتجاج جاری ہے۔

اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے نے منگل کو احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاج میں شامل افراد کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ وہ ہیلتھ رسک الاؤنس منجمد کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لے۔

ہیلتھ رسک الاؤنس کی منظوری پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2012 میں دی گئی تھی، مگر حکومت نے موجودہ مالی سال میں اسے منجمد کر دیا ہے۔

اسلام آباد کے دوسرے بڑے سرکاری اسپتال پولی کلینک کےعملے کے اہلکار اکرام نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اپنے کام کے دوران اسپتالوں کا عملہ کئی طرح کے خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔

’’ڈاکٹر اور دیگر ملازمین جب اسپتال میں آ جاتے ہیں تو وہ رسک پر ہوتے ہیں۔ انہیں کسی بھی قسم کا انفیکشن ہو سکتا ہے۔ مریضوں کو چھونے سے بھی کئی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر اور دیگر عملہ بغیر پرواہ کے علاج کرتے ہیں۔ جب کوئی بیمار یا زخمی مریض اسپتال آ جائے تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسے کیا بیماری ہے۔ وہ صرف اس کا علاج کرتے ہیں جس کے باعث انہیں خود بھی کئی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ سابقہ حکومت نے اس کے لیے ایک ہیلتھ رسک الاؤنس کا اعلان کیا تھا مگر موجودہ حکومت نے اسے منجمد کر دیا ہے جس پر ہم احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘

وفاقی دارالحکومت کے اسپتالوں کے عملے کا احتجاج اگست سے جاری ہے مگر اپنے مطالبات کی شنوائی نا ہونے پر تین ستمبر سے عملے نے سرکاری اسپتالوں کے آؤٹ ڈور شعبے میں روزانہ دو گھنٹے کی جزوی ہڑتال شروع کر دی۔

ہڑتال کے باعث اسپتالوں کے آوٹ ڈور شعبے میں آنے والے مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر تاحال اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔

مظاہرین وزیراعظم کے دفتر کے سامنے جانا چاہتے تھے لیکن پولیس نے انہیں پہلے ہی روک دیا۔

گرمی کے باعث کئی مظاہرین بے ہوش ہو گئے جس کے بعد انہیں طبی امداد کے لیے اسپتال پہنچایا گیا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے رکن نثار جٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر غور جاری ہے اور توقع ہے کہ جلد اس معاملے کو حل کر لیا جائے گا۔

پاکستان میں سرکاری اسپتالوں میں عموماً کم آمدن اور متوسط طبقے کے لوگ ہی علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں کیوں کہ وہ نجی اسپتالوں میں علاج کی سکت نہیں رکھتے۔

طبی عملے کے حالیہ احتجاج سے بھی سب سے زیادہ وہ مریض متاثر ہو رہے ہیں جن کے پاس ماسوائے سرکاری اسپتالوں میں جانے کے کوئی اور متبادل نہیں۔

XS
SM
MD
LG