رسائی کے لنکس

اسرائیل ، فلسطین مذاکرات اور قدیم یروشلم کا منصوبہ


اسرائیل ، فلسطین مذاکرات اور قدیم یروشلم کا منصوبہ
اسرائیل ، فلسطین مذاکرات اور قدیم یروشلم کا منصوبہ

17مہینے تک منقطع رہنے کے بعد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ اس تنازعے کا شاید مشکل ترین پہلو یروشلم کے قدیم حصے کا مستقبل ہے۔ یروشلم کا یہ وہ علاقہ ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سب کے لیے مقد س ہے ۔ اسرائیلیوں، فلسطینیوں، کینیڈینوں اور امریکیوں کے ایک گروپ نے ایک نئی تجویز تیار کی ہے جس کا مقصد اس مشکل مسئلے کا تصفیہ کرنے میں مدد دینا ہے ۔

یروشلم اولڈ سٹی انیشی ایٹو یعنی یروشلم شہر کے قدیم حصے کے بارے میں منصوبے کا آغاز تقریباً سات برس پہلے ہوا تھا جب کینیڈا کے سابق سفارتکاروں نے مذاکرات کرنے کے لیے بعض فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور مشرقِ وسطیٰ کے امریکی ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ اس مشکل مسئلے کا کم از کم کوئی عارضی حل تلاش کیا جائے۔

اس تجویز کا اجرا ایسے وقت ہوا ہے جب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کم کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے ۔ توقع ہے کہ اگلے چار مہینوں کے دوران، امریکہ کے خصوصی مندوب، جارج مچل دونوں فریقوں کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کریں گے یعنی وہ ایک فریق کی بات دوسرے تک پہنچائیں گے۔

وینڈی چیمبرلین مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی صدر ہیں۔ واشنگٹن میں قائم یہ تنظیم علاقے کی مطالعے کے لیے وقف ہے اور اپنی نوعیت کی قدیم ترین تنظیم ہے ۔وہ کہتی ہیں’’یہ بالواسطہ مذاکرات وہ براہ راست مذاکرات نہیں ہیں جن کی ہم سب توقع کر رہے تھے۔ لیکن طویل عرصے تک کچھ نہ ہونے کے بعد بہر حال یہ آگے کی طرف ایک قدم ہے۔ دونوں فریق جن کے درمیان اختلافات بہت زیادہ ہیں، خصوصی مندوب مچل کی وساطت سے بات چیت کریں گے۔‘‘

قدیم شہر کے بارے میں تجویز میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی ایک خصوصی حکومت قائم کی جائے گی لیکن اس کا انتظام بین الاقوامی شہرت یافتہ کوئی باہر کے ایڈمنسٹریٹر کریں گے۔ اس اقدام کے ایک مصنف، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ارتھر ہَفس ہیں جو ریٹائرڈ فارن سروس افسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ہم ہمیشہ اس بنیاد پر کام کر تے رہے ہیں کہ ہم جوبھی سفارشیں کریں وہ قابل عمل ہوں اور انہیں قائم رکھا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر یروشلم اور قدیم شہر کے بارے میں کوئی بھی سمجھوتہ ناکام ہوا تو پھر شاید امن کا پورا سمجھوتہ ختم ہو جائے گا۔‘‘

اس منصوبے میں ایسی حکومت کی تجویز پیش کی گئی ہے جو سکیورٹی، مقدس مقامات تک رسائی، زوننگ، آثارِ قدیمہ کے مسائل اور منصوبہ بندی کے امور کو کنٹرول کرے گی۔ اس منصوبے کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی، اقتدارِ اعلیٰ کے سوالات پر ، جیسے یہ کہ قدیم شہر کو کس طرح تقسیم کیا جائے ، مستقبل قریب میں متفق نہیں ہوں گے ۔

اس پراجیکٹ کے ایک ڈائریکٹر یونیورسٹی آف ونڈسر کے مائیکل بیل اسرائیل، مصر اور اردن میں کینیڈا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ہم نے حقیقت پسندی کے دائر ے میں رہنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ایسا سسٹم چاہتے تھے جو پہلے ہی شاک میں ناکام نہ ہو جائے، جیسے قدیم شہر میں پہلا قتل، کوئی اور پریشان کن یا ناگوار واقعہ یا کوئی جھگڑا، پہلا فساد، اس خصوصی حکومت کے تصور کو سبو تاژ کرنے کی پہلی کوشش۔‘‘

گیلیاڈ شر سنہ 2000 میں کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کی طرف سے مذاکرات کرنے والوں میں شامل تھیں جب اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جامع امن سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ دونوں فریقوں کو قدیم شہر کے منصوبے جیسی تجاویز کی ضرورت ہے ۔ اس قسم کا غیر سرکاری کام ضروری ہے کیوں کہ بعض معاملات اتنے حساس اور اتنے دھماکا خیز ہوتے ہیں کہ حکومتیں ان کے قریب آنا نہیں چاہتیں۔ یروشلم میں قدیم شہر کا معاملہ ایسا ہی مسئلہ ہے۔

غائتھ العمر فلسطین کے بارے میں امریکن ٹاسک فورس کے ایڈووکیسی ڈائریکٹر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ امن سمجھوتے کے خد و خال واضح ہو جائیں تو مذاکرات کرنے والے اس تجویز کو استعمال کر سکتے ہیں۔’’فلسطینی اسرائیلی مذاکرات کا جو طریقہ ہے اس کے تحت اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو گی جب تک کہ لیڈر نہیں آتے اور اقتدارِ اعلیٰ کا معاملہ طے نہیں کرتے اور اس کے بعد مذاکرات کے لیے آنے والوں کو ایک ہفتہ لگے گا اور پھر وہ عملی مسائل کو میز پر رکھیں گے۔ اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب اس قسم کی تجاویز انتہائی قیمتی اور مفید ہو جاتی ہیں۔‘‘

یروشلم میں قدیم شہر کے منصوبے پر کام کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ امن سمجھوتہ ہونے کے بعد دونوں فریقوں میں یروشلم اور مقدس مقامات پر اقتدارِ اعلیِ کا سوال طے ہونے میں ایک نسل کا عرصہ لگ جائے گا۔

XS
SM
MD
LG