رسائی کے لنکس

فلسطینی اپنی ریاست قائم کرنے کے متبادل طریقے ڈھونڈ رہے ہیں


فلسطینی اپنی ریاست قائم کرنے کے متبادل طریقے ڈھونڈ رہے ہیں
فلسطینی اپنی ریاست قائم کرنے کے متبادل طریقے ڈھونڈ رہے ہیں

اس سال امن مذاکرات کا آخری دور ناکام ہونے کے بعد، فلسطینی لیڈر، فلسطینی ریاست کے قیام کے متبادل طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اپنی ریاست قائم کرنے کے ایک متبادل طریقے کے طور پر وہ فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رام اللہ میں ہر وہ چیز موجود ہے جو کسی ملک کے دارالحکومت میں ہوتی ہے : وزارتوں کے دفاتر، یادگار عمارتیں، صدر کا دفتر، اور غیر ملکی نمائندوں کے دفاتر جو سفارت خانوں سے ملتے جلتے ہیں۔

کینیڈا، چین اور برازیل ان ملکوں میں شامل ہیں جن کے نمائندوں کے دفاتر یہاں موجود ہیں۔

اس مہینے امریکہ اپنے اس مطالبے سے دستبردار ہو گیا کہ اسرائیل مغربی کنارے میں تمام یہودی بستیوں کی تعمیر روک دے۔ یہ وہ شرط ہے جو فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیئے رکھی ہے۔

اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا یہ ذریعہ بھی ختم ہونے کے بعد، اب فلسطینی قیادت نے دنیا کے زیادہ سے زیادہ ملکوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیں۔ فلسطینی مذاکرات کار نبیل شعت اس کوشش میں پیش پیش ہیں۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے یورپی ملکوں سے کہا کہ وہ فلسطینی اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کر لیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس اقدام کا مقصد اسرائیل پر دباؤ بڑھانا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ ہم جن حالات میں ہیں، خاص طور سے جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم تشدد کی راہ پر واپس نہیں جائیں گے، ان میں ہمارے پاس بین الاقوامی اقدام کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ہم اس امید پر کہ کوئی غیبی مدد آئے گی، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے ۔

برازیل، ارجنٹائن، اور بولیویا نے دسمبر میں فلسطین کی ریاست کے وجود کو تسلیم کر لیا اور ان بہت سے ملکوں میں شامل ہو گئے جو پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں۔

لیگیا ماریا شیرر جو پیشہ ور سفارتکار ہیں اور سفیر کا درجہ رکھتی ہیں، رام اللہ کے دفتر میں برازیل کی نمائندہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی حکومت نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے ۔

ان کے الفاظ ہیں کہ برازیل سمجھتا ہے کہ فلسطین کی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے سے، ہم علاقے میں امن کے فروغ دے سکتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں، برازیل جو کچھ کرتا ہے، اس کا صرف یہی ایک مقصد ہے ۔

فلسطینیوں کو امید ہے کہ بالآخر اقوام متحدہ ان کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کر لے گی۔

انہیں امید ہے کہ ایک دن جنرل اسمبلی میں دنیا کے ملکوں کی اکثریت فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گی۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ انہیں سلامتی کونسل کی منظوری حاصل ہو جائے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کا امکان نہیں ہے کیوں کہ امریکہ ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرتا جنہیں اسرائیل اپنے خلاف تصور کرتا ہے۔

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ برازیل اور دوسرے ملکوں کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے امن کے عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔

یوسی بیلن ایک اسرائیلی سیاستداں ہیں جنھوں نے 1990 کی دہائی میں اوسلو سمجھوتوں کے مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ میں فلسطینیوں کے احساسِ محرومی کو سمجھتا ہوں لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ کوئی عملی حل نہیں ہے۔جب تک اسرائیل مغربی کنارے کو خالی نہ کرے، وہاں فلسطینی ریاست نہیں بن سکتی۔ ا ب ذرا سوچیئے کہ ساری دنیا کسی ایسی مملکت کو تسلیم کرلے جس کا وجود ہی نہ ہو، تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ اس سے کچھ نفسیاتی مدد مل سکتی ہے۔ سیاسی طور پر ، موجودہ فلسطینی قیادت کا اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ کیا یہ کوئی متبادل حل ہے، تو یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ یہ کہیں کہ کیوں کہ آپ مجھ سے شادی نہیں کرنا نہیں چاہتے، اس لیئے میں کوئی کتاب پڑھوں گا۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی حکومت کہتی ہے کہ وہ اب بھی امن سمجھوتہ کرنے کے عہد پر قائم ہے۔ تا ہم، اسرائیلی لیڈر فلسطینیوں کے بعض بنیادی مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ یہ وہ علاقے ہیں جن پر پہلے اردن کا کنٹرول تھا اور جن پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں فتح کے بعد قبضہ کیا تھا۔

بیلن اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیلی اور فلسطینی موقف کے درمیان فرق اتنا زیادہ ہے کہ موجودہ اسرائیلی انتظامیہ کے تحت، کسی مستقل سمجھوتے کا امکان بہت کم ہے ۔

XS
SM
MD
LG