رسائی کے لنکس

کیا اوباما اسرائیل فلسطین تنازعہ حل کراسکتے ہیں؟


کیا صدر اوباما تنازعہ فلسطین کا کوئی ایسا تصفیہ کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے جو خطے کے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لئے قابل قبول ہو؟ یہ ایسا سوال ہے جو اس ہفتے واشنگٹن میں مذاکرات کی میز پر آنے والے فلسطینی اور اسرائیلی رہنماوں کےساتھ صدر اوباما کی حکومت کے لئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے

عراق میں امریکہ کی جنگ کا باب ختم ہونے کے بعد اب صدر اوباما مشرق وسطی میں امن کے قیام کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کررہے ہیں۔حال ہی میں ایک امریکی ادارے پیو گلوبل ریسرچ پراجیکٹ کے ایک سروے سے ظاہر ہواہے کہ گزشتہ سال مصر میں مسلم دنیاسےخطاب اورنئی یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیےاسرایئل پر زور دینے کے باوجود عرب ملکوں میں صدر اوباما کی مقبولیت کم ہوئی ہے ۔ایسے میں امریکی موجودگی میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کو کئی تجزیہ کار گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

کیا صدر اوباما تنازعہ فلسطین کا کوئی ایسا تصفیہ کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے جو خطے کے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لئے قابل قبول ہو؟ یہ ایسا سوال ہے جو اس ہفتے واشنگٹن میں مذاکرات کی میز پر آنے والے فلسطینی اور اسرائیلی رہنماوں کےساتھ صدر اوباما کی حکومت کے لئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، جس نے مبصرین کے مطابق عراق جنگ کے باضابطہ خاتمے کا اعلان اسی امید پر کیا ہے ، کہ اس جنگ کے خاتمے سے عرب دنیا میں پائی جانے والی وہ ناراضگی دور کرنے میں آسانی ہوگی جو امریکی فوج کی عراق میں موجودگی سے شدت اختیار کر گئی تھی ۔ تاہم واشنگٹن کے یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے عراق پروگرام کی ڈائریکٹر منال عمر کہتی ہیں کہ عراقیوں کے لئے یہ جاننا اہم ہے کہ امریکہ کے عراق سے تعلق کی نوعیت اب کیا ہوگی ۔

ان کا کہنا ہے کہ عراقی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اب یہ نیا رشتہ کیسا ہوگا ۔اور عراق میں باقی رہ جانے والی امریکی فوج کا سویلین کردار کیسا ہوگا۔

عراق میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں آنے والی تیزی یہ سوال بھی اٹھا رہی ہے کہ کیا عراقی فوج ملک کا انتظام سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ منال عمر کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں عراق میں کچھ اہم دہشت گرد وں کی گرفتاری عراقی فوج کی قیادت میں عمل میں آئی

وہ کہتی ہیں کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جو چھاپے مارے گئے ان کی قیادت عراقی فوج نے کی تھی ۔ اور ثابت کیا تھا کہ وہ کیا کرنے کےاہل ہیں لیکن جب کوئی حکومت موجود نہیں ہے تو ان کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔

عراق میں امریکی جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے واشنگٹن میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے ۔ مشرق وسطی کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب جارج مچل کی کئی ماہ کی کوششوں کے بعد اسرائیلی اور فلسطینی اپنے تمام اہم معاملات کو ایک سال کے اندر طے کرنے کا ارادہ باندھ رہے ہیں اور جارج مچل کو امید ہے کہ یہ کوشش سنجیدہ ہوگی ۔

ان کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ دونوں رہنما، فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو پر خلوص اور سنجیدہ ہیں کہ ایسا ہو گا ۔اور ہم ان کی مدد کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔

واشنگٹن کے ایک ادارے انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ڈیوڈ میکووسکی پر امید ہیں کہ مغربی کنارے کی سیکیورٹی اور سرحد یں متعین کرنے کے معاملے پر پیش رفت ہو سکتی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں فریق جانتے ہیں کہ دوسرا ان سے کیا چاہتا ہے، اور میرے خیال میں اختلافات اُس سے کافی کم ہیں جتنے لوگوں کا خیال ہے کہ ہیں ۔

تاہم میکووسکی کو یہ امید نہیں ہے کہ فلسطین یا اسرائیل کسی کی قیادت نے بھی اپنی عوام کو یروشلم کی حیثیت اور مہاجرین کے معاملے پر کسی سمجھوتے کے لئے آمادہ کیا ہے۔

فلہسطینی صدر عباس نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر منجمد نہ کی تو وہ مذاکرات سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں ۔اس سمجھوتے کی مدت26 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اب تک اس معاملے پر کوئی نیا اعلان نہیں کیا۔آج تنازعے کے دونوں فریقوں کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کو مبصرین ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ آپ امن تب ہی قائم کر سکتے ہیں جب تنازعے کے دونوں فریق آمنے سامنے بیٹھنے پر تیار ہوں اور اوباما انتطامیہ کے دور میں ایسا پہلا بار ہو رہا ہے ۔

گزشتہ بیس ماہ میں یہ اسرائیل اور فلسطین کے راہنماوں کی پہلی ملاقات ہے لیکن مبصرین کو خدشہ ہے کہ جب تک اسرائیل اور فلسطین کے عوام کچھ لو اور کچھ دو پر تیار نہیں ہوتے ، فلسطین کا تنازعہ 1947 کے مقام پر ہی رکا رہے گا ۔

XS
SM
MD
LG