رسائی کے لنکس

دفاعی شعبے میں اسرائیل اور امریکہ کا تعاون


گذشتہ 18 مہینوں کے دوران اسرائیل اور امریکہ کے درمیان سفارتی اختلافات کا بڑا شہرہ ہوا ہے۔ لیکن اوباما انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوج اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعلقات جتنے مضبوط اب ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔

اس مہینے کے شروع میں اسرائیلی ملٹری نے کہا کہ اس نے کامیابی سے ایک ایسا سسٹم ٹیسٹ کیا ہے جوحملہ کرنے والے راکٹوں کو مار گرا سکتا ہے۔ اس سسٹم کا نام آئرن ڈوم ہے اور یہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ لبنان اور غزہ سے فائر کیئے جانے والے راکٹوں سے اسرائیلی بستیوں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اوباما انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے کہا ہے کہ وہ آئرن ڈوم کے لیے20 کروڑ50 لاکھ ڈالر کی منظوری دے۔ امریکہ اوراسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کی یہ تازہ ترین مثال ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ میں سیاسی اور فوجی امور کے اسسٹنٹ سکریٹری اینڈریو شیپیرو کا کہنا ہے ’’حزب اللہ نے اسرائیل کی شمالی سرحد پر ہزاروں کم اور درمیانے فاصلے کے راکٹ جمع کر لیے ہیں۔ غزہ میں حماس کے پاس بہت سارے راکٹ ہیں۔ اگر چہ یہ معمولی درجے کے ہیں، لیکن پھر بھی خطرناک ہیں‘‘۔

آئرن ڈوم سسٹم سے لبنان میں حزب اللہ اور غزہ کی پٹی میں حماس کے خطرے سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ ان دونوں اسلامی عسکریت پسند گروپوں نے ماضی میں اسرائیل پر راکٹ برسائے ہیں۔

امریکہ اسرائیل کو مزید اربوں ڈالر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے دفاعی پروگرام کے لیے بھی دے رہا ہے۔ ان میزائلوں کو ایرو اور ڈیوڈ سلنگ کہا جاتا ہے اوران کا مقصد دورمار راکٹوں اور ایران کے شباب بلسٹک مزائلوں سے اسرائیل کو محفوظ کرنا ہے۔ صدر براک اوباما نے کہا ہےکہ ’’ہم شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اپنے سائز، تاریخ، وہ علاقہ جہاں یہ واقع ہے اور اسے جو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ان سب کی روشنی میں اسرائیل کی سیکورٹی کی اپنی مخصوص ضروریات ہیں‘‘۔

گذشتہ سال میزائل سے بچاؤ کی ایک مشق میں 1,000 سے زیادہ امریکی سپاہیوں نے اسرائیلی سپاہیوں کے ساتھ شرکت کی۔ تاریخ میں یہ سب سے بڑی مشترکہ تربیتی مشق تھی۔ اس سال امریکی کانگریس نے سیکورٹی کے شعبے میں اسرائیل کے لیے دواعشاریہ سات ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کی منظور ی دی جو اب تک دی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ اگلے سال کے لیے مسٹر اوباما نے 3 ارب ڈالر کی درخواست کی ہے۔

امریکی انتظامیہ کو امید ہے کہ فوجی امداد سے امریکہ کی قیادت میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے عمل میں مدد ملے گی۔ اسسٹنٹ سکریٹری اینڈریو کہتے ہیں کہ’’آئرن ڈوم اور اسی قسم کے دوسرے پروگراموں کے لیے ہماری مد د سے اسرائیل کو ایسی صلاحیت حاصل ہو گئی ہے جس کی اسے جامع امن کے سلسلے میں مشکل فیصلے کرنے کے لیے ضرورت ہے‘‘۔

مشرقِ وسطیٰ کے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انتظامیہ یہ امید کر رہی ہے کہ اس امداد سے امن کے امکانات روشن ہو جائیں گے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیلی حکومت اور فوج بھی اسی طرح سوچتی ہے یا نہیں۔ اسرائیلی حکومت کی نظرمیں علاقے میں سب سے بڑا خطرہ ایران اور اس کا نیوکلیئر پروگرام ہے۔ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور دوسرے ملکوں نے حال ہی میں ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی منظوری دی ہے جن کا مقصد اس کے مشتبہ نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کو روکنا ہے ۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر اور بروکنگ انسٹیٹویٹ کے ڈائریکٹر برائے خارجہ پالیسی مارٹن انڈیک کہتے ہیں کہ امن کے عمل میں کامیابی سے مشرق وسطیٰ میں ایران کی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا ’’ایران علاقے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے عرب اسرائیلی تنازعے کو استعمال کرتا ہے۔ اس تنازعے کو طے کرنے کے لیے جامع کوششوں کے ذریعے ایران پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے‘‘۔

صدر اوباما کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کے اوراسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان پالیسی کے شعبے میں اختلافات رہے ہیں۔ تعلقات اس وقت بہت کشیدہ ہوگئے تھے جب اس سال کے شروع میں نائب صدر جو بائیڈن کے دورے کے موقعے پر اسرائیل نے مشرقی یروشلم کے عرب علاقے میں، اسرائیلی بستیوں کی توسیع کا اعلان کیا۔

اوباما اور نیتن یاہو کے درمیان ایک اور میٹنگ اس وقت ملتوی ہو گئی جب غزہ کے لیے امداد لے جانے والے بحری بیٹر ے پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا جس میں فلسطینیوں کے حامی نو افراد ہلاک ہو گئے ۔

ان اختلافات کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات میں خلل نہیں پڑا ہے۔ امریکہ کے خصوصی مندوب جارج مچل نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان شٹل ڈپلومیسی جاری رکھی ہے ۔ جولائی کے شروع میں دونوں لیڈروں کی ایک اور ملاقات ہوئی اور اس وقت ایسا محسوس ہوا کہ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے ۔ صدر اوباما نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’’امریکہ اور اسرائیل کے درمیان جو تعلق قائم ہے وہ نا قابلِ تنسیخ ہے‘‘۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ تعلق ملٹری اورسیکورٹی کے شعبوں میں مضبوط ترین ہے۔ ایک بار پھر اسسٹنٹ سکریٹری اینڈریو کا کہنا ہے کہ’’اس انتظامیہ کی خصوصی توجہ اسرائیل کی سیکورٹی پر ہے کیوں کہ اسے علاقے میں روز بروز زیادہ پیچیدہ اور سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اسرائیل ہمارا انتہائی اہم اتحادی ہے اور اسےعلاقے میں ہماری سیکورٹی کی ذمہ داریوں میں بنیادی اہمیت حاصل ہے‘‘۔

اینڈریو کہتے ہیں کہ یہ تعلق اور زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا کیوں کہ انتظامیہ نے اگلے دس برسوں میں اسرائیل کو تیس ارب ڈالر کے اسلحہ کی فروخت اور سیکورٹی کی امداد کا عزم کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG