رسائی کے لنکس

معافی نہیں چاہیئے: مہران بلوچ


جینیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر مظاہرے کی قیادت کرنے والے بلوچ قوم پرست راہنما کی وائس آف امریکہ سے گفتگو

’’ایک طرف مذاکرات کی دعوت دی جارہی ہے اور دوسری طرف بلوچستان کے چیف منسٹر ہاوٴس کے نزدیک بالاچ مری کے گھر کو مسمار کیا جا رہا ہے، لوگوں کا اغوا جاری ہے، لاشیں دریافت ہو رہی ہیں اور سوئٹزرلینڈ سمیت مختلف غیر ملکی حکومتوں سے کہا جا رہا ہے کہ بلوچوں کی سرکوبی کریں کہ یہ دھشت گرد ہیں۔ اس دوہرے معیار کے ساتھ مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں، مشرف حکومت میں تو لوگ لاپتا ہوتے تھے، اس دور میں تو لاشیں مل رہی ہیں۔‘‘

ان خیالات کا اظہار بلوچ قوم پرست راہنما اور اقوام متحدہ میں بلوچوں کی نمائندگی کرنے والے مہران بلوچ نے وائس آف امریکہ کے پروگرام ’’ ان دا نیوز‘‘ میں جینیوا سے ٹیلی فون پر براہ راست شرکت کے دوران کیا۔ اس سے قبل مہران بلوچ نے اقوام متحدہ کے جینیوا میں صدر دفتر کے باہر ایک ایسے مظاہرے کی قیادت کی جس میں بلوچستان میں لا پتا افراد کے لیے انصاف اور صوبے میں فوجی کارروائیاں بند کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا گیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کا اجلاس جاری ہے۔

مہران بلوچ کے بقول، حکومت پاکستان ہمارے احتجاج سے نہیں بلکہ ہماری سفارتی کوششوں سے پریشان ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی عمارت کے اندر بلوچستان کے مسئلے پر بریفنگ دی ، جِس میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں بشمول طارق فتح (کینیڈین مصنف، ایکٹوسٹ،براڈکاسٹر) اور دیگر نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔ اُن کے بقول، حکومت پاکستان نے اس بریفنگ کو رکوانے کی کوشش کی اور میرے خطاب پر احتجاج بھی کیا۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ، ’اگر پاکستان کشمیر (بھارت کے زیرانتظام) اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرتا ہے تو وہ بلوچستان میں ایسی ہی صورتحال کو اپنا اندرونی معاملہ کیسے قرار دے سکتا ہے‘۔

بلوچ راہنما نے کہا کہ امریکہ کے ایوانوں سمیت مختلف عالمی فورمز پر مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے مستقل رابطوں اور لابنگ کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ،’پاکستان عام معافیوں کی بات کرتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نےکیا جرم کیا ہے جس کی معافی دی جا رہی ہے۔ جہاں تک بلوچ راہنماوں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کی بات ہے، تو اس میں احسان کیسا، مقدمات تھے ہی بے بنیاد؟‘

اُن کے بقول، پاکستان ایک طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف غیرملکی حکومتوں اور سوئس حکومت سے کہتا ہے کہ بلوچوں کی سرکوبی کریں کہ یہ دہشتگرد ہیں۔

مہران بلوچ، بلوچستان کے طاقتور مری قبیلےکے بزرگ راہنما نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے ایک بھائی بالاچ مری 17 جنوری 2008 کو ہلاک کر دیے گئے تھے۔ وہ علیحدگی پسندوں کی تحریک میں شامل سمجھے جاتے تھے۔

مہران بلوچ کے مطابق ہم سول حکومت، صدر زرداری اور دیگر سیاسی راہنماوں کی نیت پر شک نہیں کرتے، ہو سکتا ہے وہ دل سے چاہتے ہوں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو مگر ان کےدائرہ کار میں کچھ نہیں۔’ سب اختیارات اور طاقت بلوچستان کے اندر فوج کے پاس ہے‘، جو اُن کے بقول، لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے۔

اُن کے الفاظ میں: ’ صوبے سے فوج کے آپریشن کا بند ہونا، فوج کا مکمل انخلا اور لا پتا افراد کی بازیابی یہ وہ نقطے ہیں جو سیاسی حل کے لیے نقطہ آغاز ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذاکرات کی میز پر آنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی‘۔

پروگرام میں شریک پاکستان کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور قومی دفاعی کمیٹی کے رکن نواب عبدالغنی تالپور نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان کو محرومیوں کا سامنا ہے، مگر اس میں صرف پیپلزپارٹی نہیں تمام حکومتیں قصوروار ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ ہے اور یہ کہ’ آغازحقوق بلوچستان‘ اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ، ’مقدمات بھی ختم کیے جا رہے ہیں، تاکہ ایک بار سیاسی مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔۔۔میں اورخود صدر آصف علی زرداری بلوچ نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور بلوچستان کے دکھ کو دل سے محسوس کرتے ہیں‘۔

نواب تالپور نے کہا کہ، ’ آج ملک کے اندر حالات بدل رہے ہیں اور سول حکومت طاقتور ہورہی ہے۔ بلوچ راہنماوں کو چاہیئے کہ وہ پہاڑوں سے اتریں، ملک واپس آئیں اور سیاسی حل کو ایک موقعہ اور دیں‘۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ مہران بلوچ کا ایک ایک لفظ صدر آصف علی زرداری تک پہنچائیں گے۔

انسانی حقوق کمشن پاکستان کے سابق سربراہ پروفیسر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ادارہ اجاگر کرتا رہا ہے۔ اُن کے بقول، اِن کا ازالہ ہونا چاہیئے اور صوبے میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کردینا چاہیئے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ، ’ عام غریب شہری کی بھی حق تلفی ہو رہی ہے اور اگربلوچ سردار اِس کے ذمے دار ہیں تو اُس کا بھی ازالہ ہونا چاہیئے‘۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG