رسائی کے لنکس

ڈرون حملوں کا رُکنا مشکل لگتا ہے: تجزیہ کار


’افغانستان کے حوالے سے جو امید تھی کہ دونوں ملک مل کر افغان مسئلے کو حل کریں گے، یہ معاملہ اب اور بھی مشکل نظر آرہا ہے‘

نامور تجزیہ کار معید یوسف نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے اور افغان سرحد کے پاس ہونے والے ڈرون حملے رُک سکتے ہیں۔

دوسری طرف ، اُن کے خیا ل میں، پاکستان اور امریکہ کے مابین ’’ٹیکٹیکل سطح پر تو کوئی اچھی خبر مل ہی جائے‘، لیکن، دوبارہ کسی بحرانی صورت میں، یہی چیز نظر آسکتی ہے جو شک کا معاملہ پچھلے چھ ماہ کے دوران رہا ہے۔ اُن کے بقول، افغانستان پر ’بنیادی نااتفاقی ہے‘ اور یہ معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

اُنھوں نے یہ بات اتوار کے روز ’ وائس آف امریکہ‘کےساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔ معید یوسف ’یونائٹیڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں ساؤتھ ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر بات چیت نہیں ہورہی ہے۔

اُن کے بقول،افغانستان کے حوالے سےجوامید تھی کہ دونوں ممالک مل کر افغان مسئلے کو حل کریں گے، اب یہ معاملہ اور بھی مشکل نظر آرہا ہے۔

یہ معلوم کرنے پر کہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیےمتضاد دعوے سامنے آتے ہیں: ایک میں کہا جاتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے کمانڈر کو مارا گیا، جب کہ دوسری طرف سولینز کی ہلاکت کا دعویٰ ہوتا ہے۔

اِس پر، معید یوسف نے کہا کہ یہ اطلاعات اور اُن میں فرق کا معاملہ مشکل سے حل ہوگا۔ اُن کے بقول، یہ ضرور ہے کہ ایک یا دو برس قبل تک یہ کہا جاتا تھا کہ القاعدہ یا غیر افغانی غیر ملکی عناصر کو ہدف بنایا جا رہا ہے، اور اب حقانی نیٹ ورک، مولوی نذیر گروپ، یا باقی شدت پسند افغان عناصر کے نام ہدف بنائے جانے والوں میں سامنے آتے ہیں۔

اُن کے الفاظ میں، کیونکہ قابل بھروسہ ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، اس لیے، دونوں اطراف سے جو اطلاعات آتی ہیں اُن کو ایک حد تک مانا جا سکتا ہے۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG