رسائی کے لنکس

جاپانی وزیرِ اعظم کا جنگی ماضی پر 'ندامت' کا اظہار


ایبے نے یہ بھی کہا کہ ’’بین الاقوامی برادری کو کبھی بھی طاقتور کی جانب سے کمزور کو قابو کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی بلا روک ٹوک اجازت نہیں دینی چاہیئے۔‘‘

جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے نے بدھ کو ایشیا افریقہ سربراہ کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران جاپان کے جنگی ماضی پر ’’انتہائی ندامت‘‘ کا اظہار کیا ہے مگر انہوں نے جاپان کی نوآبادیاتی جارحیت کے متاثرین سے سابق حکمرانوں کی طرح معافی نہیں مانگی۔

ایبے نے انڈونیشیا میں اپنی تقریر میں چین پر درپردہ تنقید کی۔

اس کانفرنس سے قبل جاپان کے وزیرِ اعظم نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں 1995 اور 2005 میں اپنے پیش روؤں کی طرح معافی کا مطالبہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔

جکارتہ میں کی گئی تقریر میں جاپان کے جنگی ماضی کا سرسری ذکر کیا گیا، جس میں یہ کہا گیا کہ ٹوکیو ’’ماضی کی جنگ کے بارے میں انتہائی ندامت کے جذبات‘‘ رکھتا ہے مگر ساتھ ہی اس بات پر اصرار کیا کہ جاپان کے رہنما طویل عرصے سے امن کے اصولوں پر کاربند ہیں۔

ایبے نے یہ بھی کہا کہ ’’بین الاقوامی برادری کو کبھی بھی طاقتور کی جانب سے کمزور کو قابو کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی بلا روک ٹوک اجازت نہیں دینی چاہیئے۔‘‘

یہ بات بظاہر انہوں نے چین کے حوالے سے کہی جس پر اپنے ہمسایہ ممالک کو دبانے کا الزام ہے اور جس کے ٹوکیو کے ساتھ مشرقی بحیرہ چین میں سٹریٹیجک اہمیت کے حامل جزائر پر جھگڑا ہے۔

جاپانی اور چینی رہنماؤں کی ملاقات

جاپانی حکام نے کہا ہے کہ بدھ کو جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے چین کی صدر شی جن پنگ سے ملاقات متوقع ہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد ایبے اور شی کی یہ دوسری ملاقات ہو گی اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا امکان ہے۔

دونوں رہنما جکارتہ میں ایشیا افریقہ سربراہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔

چین اور جاپان کے تعلقات طویل عرصے سے تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ علاقائی تنازع میں بگاڑ اور جاپان کے اپنے جنگی ماضی کے بارے میں متنازع مؤقف کی وجہ سے حال ہی میں ان دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔

ان کے درمیان ایک مستقل وجۂ نزع جاپانی رہنماؤں کا ایک متنازع جنگی یادگار پر حاضری دینا ہے۔ یہ یادگار جنگ میں ہلاک ہونے والے جاپانیوں کی تعظیم کرتی ہے جن میں دوسری جنگِ عظیم میں مبینہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد بھی شامل ہیں۔

سو سے زائد جاپانی قانون سازوں نے بدھ کو یاسوکونی یادگار پر حاضری دی، تاہم ان میں کابینہ کا کوئی رکن شامل نہیں تھا جس سے بظاہر اس کی متنازع نوعیت میں کمی آئی ہے۔

وزیرِ اعظم ایبے نے اس ہفتے اس یادگار پر حاضری دینے سے گریز کیا اوراس کی جگہ ایک رسمی نذرانہ بھیجنے پر اکتفا کیا۔

وزیرِ اعظم ایبے نے 2013 میں اس یادگار پر حاضری دی تھی۔ انہوں نے اس کا دفاع یہ کہہ کر کیا تھا کہ ان کے لیے قدرتی امر ہے کہ وہ ملک کے لیے جان دینے والوں کی تکریم کریں۔

کئی چینی اور جنوبی کورین اس حاضری کو اس بات کا ثبوت مانتے ہیں کہ جاپان کو نوآبادیاتی دور میں ان دو ممالک میں کیے جانے والے مظالم پر کوئی ندامت نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG