رسائی کے لنکس

جان ایف کینیڈی کی خارجہ پالیسی آج بھی قابل ِتعریف


صدر کینیڈی نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’ہم ہر قوم کو بتا دینا چاہتے ہیں، چاہے وہ ہمارے بہی خواہ ہیں یا مخالف، اپنی بقاء اور آزادی کی کامیابی کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، کوئی بھی بوجھ اور سختیاں جھیلنے کے لیے مستعد ہیں، تاکہ ہماری بقاء اور آذادی کی حرمت کو یقینی بنایا جا سکے‘۔

22 نومبر 2013ء کو امریکہ میں سابق صدر جان ایف کینیڈی کی 50 ویں برسی منائی جائے گی، جنہیں 50 برس قبل قتل کیا گیا تھا۔

جب صدر کینیڈی 1961ء میں امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے اس وقت دنیا کے حالات بہت مختلف تھے۔ امریکہ اور سوویت یونین سرد جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔ ایسے میں صدر کینیڈی کمیونزم کو ختم کرنے کے عزم کے ساتھ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے مگر اپنے دور ِ حکومت کے آغاز میں ہی کیوبا میں ناکامی سے ان کی خارجہ پالیسی کو دھچکا لگا۔

اپنے دور ِ صدارت کے آغاز میں ہی صدر کنیڈی نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ میں کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔

صدر کینیڈی نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’ہم ہر قوم کو بتا دینا چاہتے ہیں، چاہے وہ ہمارے بہی خواہ ہیں یا مخالف، اپنی بقاء اور آزادی کی کامیابی کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، کوئی بھی بوجھ اور سختیاں جھیلنے کے لیے مستعد ہیں، تاکہ ہماری بقاء اور آذادی کی حرمت کو یقینی بنایا جا سکے‘۔


مگر صدر کینیڈی کی انتظامیہ کو اس وقت ایک دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے سی آئے اے کی جانب سے کاسترو کے جلاوطن مخالفین کی طرف سے جنوبی کیوبا میں چڑھائی کا پلان بنایا۔ مصنف رابرٹ ڈیلیک کہتے ہیں کہ یہ ایک سنگین غلطی تھی، جس سے صدر کینیڈی نے ایک بڑا سبق حاصل کیا۔

رابرٹ ڈیلیک کے الفاظ، ’’یہ ایک بہت بڑی ناکامی تھی، اتنی بڑی کہ خود صدر کینیڈی نے اس کا بارہا ذکر کیا۔ وہ محو ِ حیرت تھے کہ،’مجھ سے اتنا احمقانہ فیصلہ کیسے سرزد ہوا؟‘‘

کیوبا میں کی گئی غلطی کے بعد صدر کینیڈی نے اپنے دورہ ِ یورپ کے دوران یہ سمجھ لیا تھا کہ انہیں عالمی لیڈروں کی طرف سے، جس میں ان کے دوست اور دشمن شامل ہوں، تعظیم حاصل کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

رابرٹ ڈیلیک کے الفاظ، ’صدر کینیڈی اور فرانسیسی صدر ڈیگال کا ایک ساتھ کھڑے ہونے سے، صدر کینیڈی کی جانب سے صدر ڈیگال کو مساوانہ جگہ دینے کی باعث عالمی سطح پر صدر کینیڈی کا قد کاٹھ بلند ہوا۔ اس کے بعد صدر کینیڈی کی ویانا میں سوویت یونین کے فرسٹ سیکریٹری نکیتا کروشیف واضح طور پر صدر کینیڈی سے کہیں آگے دکھائی دئیے کہ نوجوان اور ناتجربہ کار صدر کینیڈی کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں‘۔

صدر کینیڈی کو اکتوبر 1962ء میں اپنی خارجہ پالیسی کے ضمن میں اس وقت کڑے امتحان کا سامنا کرنا پڑا جب امریکی جاسوس طیاروں نے کیوبا میں سوویت فوجی سرگرمیوں کی اطلاع دی۔

صدر کینیڈی کے الفاظ، ’گذشتہ ایک ہفتے میں ہمارے پاس موجود ٹھوس شواہد بتاتے ہیں کہ اس جزیرے (کیوبا) سے میزائل داغنے کی جارحانہ تیاری کی جا رہی ہے‘۔

صدر کینیڈی نے اس وقت کیوبا کی بحری ناکہ بندی کا حکم دیا تاکہ سوویت میزائل وہاں تک نہ پہنچ سکیں۔ 13 روز تک کیوبا میں میزائل کی رسائی نہ ہونے کے سبب دنیا جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی۔ مگر دوسری جانب صدر کینیڈی کی طرف سے سفارت کای کی کوششوں اور فوجی کارروائی کی دھمکیوں کی وجہ سے اس بحران کا حل نکل آیا اور سوویت یونین پیچھے ہٹ گیا۔

اس واقعے کے بعد صدر کینیڈی نے سرد جنگ کے اثرات ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔ صدر کینیڈی کے قتل سے چند ماہ قبل انہیں ایک اہم کامیابی ملی جو کہ سوویت یونین کے ساتھ محدود پیمانے پر جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کا معاہدہ طے پانا تھا، جس پر امریکہ اور سوویت یونین نے دستخط کیے۔

گو کہ صدر کینیڈی کا دور ِ حکومت مختصر تھا مگر جس طرح وہ کیوبا میزائل بحران کی صورتحال سے نبرد آزما ہوئے اور جس طرح صدر کینیڈی عالمی امن کے لیے کوشاں رہے، وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG