رسائی کے لنکس

شام میں ’مربوط حکمتِ عملی‘ اپنانی ہوگی: پاکستانی سفارت کار


فائل
فائل

اردو سروس کے پروگرام، ’جہاں رنگ‘ میں اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ شام، بقول اُن کے، پہلے ہی تین دھڑوں میں بٹا ہوا ہے، جس کی شناخت اُنھوں نے شیعہ، سنی اور کرد آبادی کی شکل میں کرائی

ایک ممتاز سابق پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ شام میں گمبیر تنازعات سمیت داعش کے مسئلے کے حل کے لیے امریکہ اور مغربی ملکوں کے درمیان ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔

سفیر مشتاق مہر نے، جو مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں، اس خیال کا اظہار کیا کہ اس حکمت عملی کی بنیاد مضبوط فوجی طاقت پر ہونی چاہیئے۔

اردو سروس کے پروگرام، ’جہاں رنگ‘ میں اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ شام، بقول اُن کے، پہلے ہی تین دھڑوں میں بٹا ہوا ہے، جس کی شناخت اُنھوں نے شیعہ، سنی اور کرد آبادی کی شکل میں کرائی۔

سفیر مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شام کے اندر موجودہ پیچیدہ منظرنامے کو نظرانداز نہ کریں۔

یاد رہے کہ چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی اور دھڑے بندی پر مبنی لڑائی اور دہشت گرد کارروائیوں میں شام کے اندر اب تک لاکھوں افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں، جن میں سے بھاری تعداد میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ ’المیہ یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں بے گھر ہونے والے بچے بغیر والدین کے مختلف اجنبی ممالک میں دربدر ہیں‘۔

تفصیل کے لیے منسلک وڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:

جہاں رنگ: داعش کا خطرہ - نومبر 9، 2015
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:41 0:00

XS
SM
MD
LG