رسائی کے لنکس

کراچی میں عالمی اردو کانفرنس جاری، بھارتی ادیب نہیں آ سکے


سرحدوں پر کشیدگی اور تعلقات میں تلخیوں کی موجودگی کے سبب بھارتی ادیبوں نے کانفرنس شرکت نہیں کی۔

کراچی میں ان دنوں’نویں عالمی اُردو کانفرنس ‘جاری ہے ۔۔۔ مگر کچھ پھیکے پھیکے اندازمیں۔ یہ پھیکا پن بھارت کے ادیبوں اور دانش وروں کے کانفرنس میں شرکت نہ کرسکنے کے سبب ہے ورنہ پاکستان کا ہر دانشور اور ادیب اس کانفرنس کا حصہ ہے۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی سب سے اہم بات بھارت کے معروف ادیب اور دانشور شمیم حنفی کا براہ راست آڈیو خطاب تھا جو اس وقت دہلی میں ہیں۔

سرحدوں پر کشیدگی اور تعلقات میں تلخیوں کی موجودگی کے سبب بھارتی ادیبوں نے کانفرنس شرکت نہیں کی۔ ورنہ وہ بھی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے والے پاکستان لکھاریوں، ادیبوں اور دانش وروں کے ہمراہ کراچی میں ہوتے۔

مشتاق یوسفی، اسد محمد خاں، آئی اے رحمٰن ، زہرا نگاہ، پیرزادہ قاسم، رضا علی عابدی، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، فاطمہ حسن،فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، آصف اسلم فرخی، پروفیسر سحر انصاری، شہناز صدیقی، احمد شاہ، زاہدہ حنا، امداد حسینی، پروفیسر اعجاز فاروقی، اطہر وقار عظیم اور دیگر سینکڑوں نامور ادیب و شعرا اس کانفرنس میں شریک ہیں اور مختلف موضوعات پر ہونے والی نشستوں کی شان ہیں۔ مختلف نشستوں میں ان کی جانب سے پیش کئے گئے مختلف موضوعات پر مقالوں کو عوام نے خوب سراہا اور تالیاں بجابجاکر داد دی۔

یکم دسمبر سے چار دسمبر تک آرٹس کونسل کراچی میں جاری اس کانفرنس سے خطاب میں آرٹس کونسل کے چیئرمین محمد احمد شاہ نے کہا ’’ یہ کانفرنس زبانوں سے محبت کرنے والوں کا ایک قافلہ ہے۔ ساری زبانوں کی نمائندگی یہاں موجود ہے جبکہ ہم فروری میں قومی ثقافتی کانفرنس بھی منعقد کرنے جارہے ہیں۔‘

کانفرنس میں ہر روز مختلف موضوعات پر مختلف سیشنز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کانفرنس صبح ساڑھے دس بجے شروع ہو کر رات تک جاری رہتی ہے۔ پاکستان بھر سے آئے ہوئے اور تمام مقامی زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادیب کانفرنس میں شریک ہیں۔

کانفرنس کے پہلے دن کے تیسرے سیشن میں ”ذکر یار چلے“ کے عنوان سے شیما کرمانی کی تحریکِ نسواں کے زیر اہتمام فیض احمد فیض کی زندگی اور شاعری کے بارے میں تمثیل اور رقص پر مبنی شاندار پرفارمنس پیش کی گئی جسے خوب عوامی پذیرائی ملی ۔

اس کی ہدایات انور جعفری نے دیں۔ فیض احمد فیض کی زندگی اور ان کے اشعار کو نوجوان آرٹسٹوں نے رقص اور تمثیل کے ذریعے شرکا کے سامنے پیش کیا۔

جمعہ کو کانفرنس کا دوسرا دن تھا جس کے پہلے سیشن میں’ نعت اور ادبی روایات‘پر تبادلہ خیال ہوا۔ پروفیسر سحر انصاری کا کہنا تھا کہ’’ نعت گوئی حمد و نعت لکھنے والوں کے لئے انتہائی معتبر ہے۔ ہمارے نعت گوئی لکھنے والے بہت بڑے بڑے شاعر ہیں اور نعت گوئی پر ابھی بھی کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔‘‘

اس سیشن میں رؤف پاریکھ، ڈاکٹر جہاں آراءلطفی، عزیز احسن، شاداب احسانی، تنظیم الفردوس اورعنبرین حسین عنبرنے بھی خطاب کیا۔

دوسرے روز کے دوسرے سیشن کا موضوع ’’زبان و ادب کا فروغ اور نصابِ تعلیم‘‘ تھا جس سے ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے صدارتی خطاب کیا۔

تیسرے سیشن کا موضوع’چہ مستانہ می رود!....غالب سے اقبال تک‘ تھا جس پر ڈاکٹر نعمان الحق نےلیکچر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ’’ اقبال کو غالب پر فوقیت حاصل ہے۔ غالب اور اقبال کی پہچان مشترکہ جدید شاعری ہے اور جدید شاعری کی روایت میں حالی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ ‘‘

چوتھا سیشن’نئے سماجی ذرائع اور ابلاغ کی صورتحال‘ کے موضوع پر تھا اس کے شرکاء ،ہإ رضا علی عابدی، غازی صلاح الدین، مظہر عباس، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر نعمان نقوی، وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر محمدایوب شیخ شامل تھے۔

پانچواں سیشن’پاکستانی زبانیں اور قومی ہم آہنگی‘ پر رکھا گیا جس سے خطاب میں ڈاکٹر قاسم بگھیونے کہا ہے کہ ہمیں اپنے کلچر کو آگے بڑھانے کے لئے خود جدوجہد کرنا ہوگی۔ لوگ مر جاتے ہیں، ثقافتیں زندہ رہتی ہیں۔‘‘

چھٹا سیشن مایہء ناز ناول اور افسانہ نگار مرزا اطہر بیگ سے ملاقات پر مشتمل تھا جس کی میزبانی ڈاکٹر آصف فرخی نے انجام دی۔

مرزا اطہر بیگ نے کہا ہے کہ میرے ناول میں میرا تنقیدی نقطہ نظر بھی موجود ہے۔ میری ناول نگاری کا سفرجاری ہے۔ ٹی وی ڈرامہ میری تسکین نہیں ،میں نے ڈرامے آمدنی کی غرض سے لکھے۔ اس سے ادب کا کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ڈرامے سے میری ناول نگاری کو بہت فائدہ ہوا۔ میری ہر سیریل ایک ناول نظر آتا ہے، میں ڈرامہ لکھتا تھا تو لوگ کہتے ہیں فلسفہ لکھتا ہے، میرا ڈرامہ ”دوسرا آسمان “ایک مقبول ڈرامہ تھا۔’’

ہفتے کو کانفرنس کا تیسر ا دن ہے اور پورے دن میں کل بھی کئی سیشنز منعقد ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG