رسائی کے لنکس

تحفظ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کے خلاف کراچی میں شٹرڈاوٴن ہڑتال


تحفظ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کے خلاف کراچی میں شٹرڈاوٴن ہڑتال
تحفظ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کے خلاف کراچی میں شٹرڈاوٴن ہڑتال

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی آج توہین رسالت ایکٹ میں ممکنہ ترمیم کے خلاف شٹرڈاوٴن ہڑتال کی گئی اورشہر کے مختلف علاقو ں سے احتجاجی جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں۔ کراچی سنی اتحاد کونسل کے تحت مزار قائد نورانی چورنگی (پرانی نمائش) سے مزار حضرت عالم شاہ بخاری تک تحفظ ناموس رسالت مارچ بھی کیا گیاجس میں علماء، مشائخ اورسیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی ۔

ہڑتال کے سبب شہر کے تمام کاروباری مراکز، دکانیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی جبکہ سردیوں کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے تعلیمی ادارے پہلے ہی بند ہیں۔ تاہم سرکاری دفاتر کھلے رہے لیکن ان کا زیادہ تر عملہ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے دفتروں کو نہ پہنچ سکا۔

انتظامیہ نے آج ہونے والی ہڑتال کے پیش نظرشہربھر میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے تھے۔ پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں اہم شاہراہوں کے ساتھ ساتھ ذیلی سڑکوں پر دن بھر گشت کرتی رہیں جبکہ رفاہی اداروں نے بھی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے خود کو الرٹ رکھا ہوا تھا۔ ایمبولیس سینٹروں پر دن بھر عملہ ڈیوٹی دیتا رہا جبکہ اسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو الرٹ رہنے کی ہدایات تھیں۔

ہڑتال کی کال تحریک تحفظ ناموس رسالت نے دی تھی جس کے لئے کئی دن پہلے سے شہر کے تمام گلی چوراہوں پر بڑے بڑے بینرز آویزاں کئے گئے تھے ۔ ہڑتال میں بھرپور انداز سے عوامی شرکت کو ممکن بنانے کے لئے گشتی ٹیمیں بھی ترتیب دی گئی تھیں جو لاوڈ اسپیکر پر شہر میں اعلان کرتی رہیں۔ کل بھی تمام مساجد میں پمفلٹس تقسیم کئے گئے تھے ۔ اس مہم کے نتیجے میں آج شہر میں مختلف ریلیاں بھی نکالی گئیں جن میں علماء اور سیاسی و دینی رہنماوٴں نے تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں تبدیلی کی مخالفت میں تقریریں کیں ۔

تحفظ ناموس رسالت کے تحت پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺکی شان میں گستاخی کی سزاموت ہے ۔ ابتدا میں گستاخ رسول کی سزا دو سال رکھی گئی تھی جس میں تبدیلی کی گئی اور پھر یہ سزا دو سال سے بڑھا کر تین سال کردی گئی ۔ ماضی میں ہونے والی ایک اور ترمیم کے تحت اسے عمر قید میں بھی بدل دیا گیا تاہم بعد میں اسے قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظوری کے بعد سزائے موت میں بدل دیا گیا۔

چند ماہ پہلے ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے اٹانوالی کی ایک مسیحی خاتون آسیہ کو پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے جرم میں مقامی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم دنیا بھر کی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے عدالتی فیصلے اور خصوصاً قانون رسالت کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت پر دباوٴ ڈالا تھا اور الزام لگایا تھا کہ چونکہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے لہذا سزائے موت کا قانون تبدیل کیا جائے۔ تب سے ملک بھر کی دینی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس مطالبے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور آج ہونے والی ہڑتال کا سبب بھی یہی تھا۔

ادھر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن کا آج ہونے والی ہڑتال اور اس کے اسباب کے بارے میں کہنا ہے کہ حکومت نے اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی سربراہی میں توہین رسالت قانون کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی بنادی ہے جبکہ دینی جماعتیں کسی صورت بھی توہین رسالت ایکٹ میں کوئی ترمیم قبول نہیں کرسکتیں۔

وائس آف امریکا کے نمائندے نے ہڑتال کا جائزہ لینے کے لئے آج شہر بھر اور خصوصی طور پر سرکاری دفاتر کا دورہ کیا ۔ شہر میں واقع نادرا اور پاسپورٹ آفس کھلے رہے جہاں خاصی حد تک عملہ موجودبھی رہا لیکن عوام کا رش دیگر دنوں کے مقابلے میں کم رہا۔

شہر کے کچھ علاقوں سے احتجاج کئے جانے کی اطلاعات بھی ملیں جن میں مظاہرین نے ٹائر جلاکر سڑکیں ٹریفک کیلئے بلاک کردیں۔متاثرہ علاقوں میں قائد آباد،اسٹیل ٹاوٴن، داوٴد چورنگی،گلبائی ،شیر شاہ، آئی سی آئی برج، حبیب بینک چورنگی،غنی چورنگی، حب ریور روڈ، نادرن بائی پاس، کیماڑی، لسبیلہ چورنگی، ناظم آباد چورنگی اور دیگر شامل ہیں۔ آج بندرگاہ سے سامان کی ترسیل بھی ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث بند رہی۔

آج ہونے والی ہڑتال کی کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے بھی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے تمام پبلک ٹرانسپورٹ اپنے اڈوں تک ہی محدود رہی اور سڑکوں پر ہو کا عالم رہا جس کے باعث عوام کو سفر میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ بس اسٹاپس پر عوام کی بڑی تعداد ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتی رہی۔ آل گڈز ٹرانسپورٹ اور آئل ٹینکر ایسوسی ایشن نے بھی ہڑتال کی حمایت میں تیل کی سپلائی معطل رکھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر محنت و مذہبی امور سید خورشید شاہ نے علماء سے اپیل کی تھی کہ ہڑتال کی کال واپس لی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ناموس رسالت قانون میں نہ تو ترمیم کر رہی ہے اور نہ ہی کوئی بل اسمبلی میں جمع کرایا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے معاشی حالات ہڑتال کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

XS
SM
MD
LG