رسائی کے لنکس

کراچی میں بند دروازوں کے پیچھے کی ’ان دیکھی‘ دنیا: رپورٹ


یہ وہ دنیا ہے جو چار دہائیوں پہلے تک اسی شہر میں کھل کر سانس لیتی تھی، لیکن کچھ اندیشوں کے سبب اب یہ بند دروازوں کی اوٹ لے رہی ہے

ایک دور میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مشہور ترین نائٹ کلب ہوا کرتے تھے جہاں شراب، موسیقی اور مستی عام ہوا کرتی تھی۔ اس وقت شہر پر اور خاص کر ان کلبوں پر مغربی ثقافت کا غلبہ تھا۔ وقت نے کروٹ لی، حکومتیں بدلیں، پابندیاں لگیں تو لوگوں کے مزاج بھی بدل گئے اور رفتہ رفتہ شہر سے ’نائٹ کلب کلچر‘ کا خاتمہ ہوگیا۔

مگر سالوں بعد اب ایک مرتبہ پھر وہی نسل دھیرے دھیرے مغربی کلچر، مے نوشی، موسیقی، رقص اور ’قربتوں‘ کو پروان چڑھانے لگی ہے جو حالیہ دہائیوں میں قصہ پارینہ ہوچکا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے کچھ حصوں میں نصف رات میں بند دروازوں کے پیچھے اور سب سے چھپ کر ایک نئی دنیا ’جواں‘ ہوتی ہے۔ ایسی دنیا جس کا اس شہر کے اجالوں سے کوئی تعلق نہیں ۔

یہ وہ دنیا ہے جو چار دہایوں پہلے تک اسی شہر میں کھل کر سانس لیتی تھی لیکن اب بعض شدت پسندوں کے خوف اور خود کش حملوں کے اندیشوں کے سبب بند دروازوں کی اوٹ لے رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ان محفلوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ راک بینڈ آرکیسٹرا کا ویسٹرن میوزک اور اس کی دھن پر چست پوشاکوں میں رقص کرتی نوعمر لڑکیاں، نشیلا دھواں اور جام کا مزہ لیتے لوگوں کا مجمع۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں آنے والے لوگوں کی اکثریت یا تو بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والوں کی ہے یا ایسے لوگوں کی جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک گزارا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی دنیا کا تصور کچھ سال پہلے تک محال تھا۔ تاہم، 70 کی دہائی میں نائٹ کلب کا رواج عام تھا۔ اسی دہائی کے سب سے پاپولر بینڈ کا حصہ رہنے والے ایک موسیقار جو اب ایک بزنس اسکول میں پڑھاتے ہیں ان کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کے دور حکومت میں ان نائٹ کلبس کا رواج عام تھا۔ لیکن جیسے ہی ان کی حکومت ختم ہوئی یہ ’مزے‘ جاتے رہے۔

کراچی میٹروپولیٹن ہوٹل کے مالک، ہیپی منوالا کا قول نقل کرتے ہوئے رپورٹ کیا گیا ہے کہ ’سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد ہوٹل انڈسٹری بدحالی کا شکار ہوئی۔ کلبس بند ہوگئے، رقص و سرور کی محفلیں ماضی کی یادوں میں قید ہوگئیں۔ لیکن یہاں کے لوگوں کی نائٹ لائف کے لئے پیاس اب بھی باقی ہے۔ جو امیر ہیں ان کے لئے شراب گھر کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے جبکہ باقی لوگ مخصوص دکانوں سے شراب خرید لیتے ہیں۔ یہ دکانیں زیادہ تر عیسائی کمیونٹی کی ملکیت بتائے جاتے ہیں‘۔

رپورٹ میں ایک پائلٹ، جن کا نام عقیل اختر بتایا گیا ہے، ان کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ مہینے میں دو بار اپنے گھر کو ہی کلب میں تبدیل کر لیتے ہیں، تاکہ ان کے حلقے کے لوگ بند دروaزوں کے پیچھے ہی سہی نائٹ کلب کی لائف کو انجوائے کرسکیں۔

خبر ایجنسی کے مطابق،’ایسی پارٹیوں کیتشہیر نہیں کی جاتی نہ ہی سوشل میڈیا پر اس کا کوئی ذکر ہوتا ہے۔ ہوٹل ہو یا گھر جہاں بھی ایسی پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے وہاں سے باہر سے نکلتے وقت کسی کو یہ بھنک بھی نہیں پڑتی کہ بند دروازوں کے پیچھے رات بھر کیا ہوتا رہا۔ کیوں کہ سب کچھ خاموشی سے ہوتا ہے کسی کو اشارہ بھی نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ پڑوسیوں کو بھی اس کی خبر نہیں ہوپاتی۔‘

XS
SM
MD
LG