رسائی کے لنکس

کرپشن کے الزامات کے خلاف صدرکرزئی کی حکمت عملی


صدرحامد کرزئی کو کرپشن اور گڈ گورنس کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ مگراب کچھ عرصے سے وہ مغرب پر انتخابات میں مداخلت کا الزام لگارہے ہیں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ چین اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں۔ ماہرین اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا صدر کرزئی کے یہ اقدامات کرپشن ختم کرنے کے امریکی دباؤ کا ردعمل تو نہیں ؟

افغان صدر حامد کرزئی افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں طالبان کے خلاف نیٹو افواج کے آپریشن کے لیے لوگوں سے حمائت کی درخواست کرتے ہوئےنظر آ رہے ہیں۔

انہوں نے طالبان کے حامی افغانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اپنے ہی ملک کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ان کا کہناتھا کہ ہم کبھی بھی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ جو یہاں وہاں بم دھماکے کرتے ہیں۔

واشنگٹن اور صدر کرزئی کے درمیان حالات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ افغان قانون سازوں کا کہناہے کہ صدر کرزئی نے مغربی الزامات پر تنقید کے جواب میں بند کمرے میں میٹنگ کی۔

امریکی محکمہِ خارجہ نے صدر کرزئی کے بیان پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ترجمان کراؤلی کا کہناتھا کہ اس قسم کے بیانات اس مدد کو کم کر سکتے ہیں جس کی ہمیں آگے بڑھنے کے لیے ضرورت ہے۔

صدر کرزئی نے بعد میں وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کو اس وقت فون کیا جب وائٹ ہاؤس نے ان کے بیان کو پریشان کن قرار دیا۔ کچھ ماہرین کا کہناہے کہ صدر کرزئی کا بیان امریکہ کے ساتھ ان کی کشیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور نیٹو طالبان کو پیچھے دھکیلنے کے لیے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔

صدر اوباما نے گزشتہ ماہ کے آخر میں کابل کے ایک غیر اعلانیہ دورے پر صدر کرزئی سے کہا تھا کہ وہ اپنے حکومت سے کرپشن کا خاتمہ کریں۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم خطے میں انتہا پسندی کے خلاف فوجی حکمتِ عملی میں پہلے ہی بہتری دیکھ رہے ہیں۔ مگر ہمیں سول حکومت کے نظام میں میں بہتری لانا ہو گی۔

کچھ ماہرین صدر کرازئی کی طرف سے ایران اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کو سول کرپشن پر امریکی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ کرزئی ایک طویل عرصے سے امریکیوں کو ناراض کر رہے ہیں۔ٕمثال کے طور پر وہ اپنے طور پر انڈیا سے ملاقات کر رہے ہیں۔ وہ چین سے مل رہے ہیں۔

مگر جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے والٹر اینڈرسن کہتے ہیں کہ یہ افغانستان کے لیے اچھا ہے۔انہوں نے کہا کہ خاص طور پر ان دنوں جب یہ سوچ موجود ہے کہ امریکہ بڑے پیمانے پر اپنی موجودگی کو کم کرے گا۔ یہ اچھا ہے کہ آپ اپنے پڑوس میں زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کریں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں چین اور ایران کے مفادات مغرب سے مختلف ہیں۔ افغانستان میں استحکام چین کے اپنے مغربی حصے کی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے کیونکہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور افغانستان کی معدنیات چین کے لیے توجہ کا مرکز ہیں۔

XS
SM
MD
LG