رسائی کے لنکس

کیری لوگر بل یعنی پاکستان کے ساتھ بہتر شراکت داری کا قانون مجریہ 2009 (خلاصہ)


کیری لوگر
کیری لوگر

کیری لوگر بل یعنی پاکستان کے ساتھ بہتر شراکت داری کا قانون مجریہ 2009
(خلاصہ)

کیری لوگر بل کا مقصد:

اس بل کو متعارف کرانے میں سینیٹر جان کیری اور سینیٹر رچرڈ لوگرکا نصب العین یہ تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں بہتری آئے۔ یعنی بجائے اس کے کہ وقتی طور پر مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اور بحران کے ساتھ نمٹنے کے لئے کچھ سطحی سے اصول وضع کرلئے جائیں، اس بل کے ذریعے کوشش کی گئی ہے کہ ایک اہم ترین ملک یعنی پاکستان کے لیڈوروں ہی سے نہیں بلکہ عوام کے ساتھ بھی ایسے طویل المدت تعلقات استوار کئے جائیں جن میں گہرائی بھی اور وسعت بھی۔

یہی وجہ ہے کہ کیری لوگر بل طویل المدت تعلقات پر زور دیتا ہے اور ان کی بنیاد باہمی اعتماد اور تعاون پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ گویا اس بل کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے عوام پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ امریکہ ان کا دوست ہے جس کے مقاصد ویسے ہی ہیں جیسے پاکستان کے، اورجس کا مفاد وہی ہے جو پاکستان کا مفاد ہے۔ دونوں میں اہم ترین قدر مشترک دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو شکست دینا ہے، جن کے باعث دونوں ممالک کی سلامتی خطرے میں ہے۔

ماضی میں امریکہ نے پاکستان کوکیا معاونت فراہم کی ہے، اس میں سیاسی واقعات کے باعث اتار چڑھاؤآتے رہے ہیں۔ تعلقات میں اس کمی بیشی کے باعث پاکستانی عوام میں بجا طور پر شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے اور بیشتر پاکستانی امریکہ کی نیت پر بھی شک کرنے لگے اور انہیں یہ یقین بھی نہیں رہا کہ اگر امریکہ ہمارا دوست بھی ہے تو کب تک۔

آج زیادہ تر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد چلتا بنے گا اور ہم مصائب سے نمٹنے کے لئے تنہا رہ جائیں گے۔ جب ایسے تصورات عوام کے دل و دماغ پر چھا جائیں تو پھر دونوں ممالک کے مشترکہ اور اصل نصب العین کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، جس میں دہشت گردوں کو شکست دینے کے علاوہ جمہوری اداروں کا فروغ اور شفاف اور احستابی اداروں کی مدد کرنا شامل ہے۔ تاکہ پاکستان میں سلامتی اور استحکام بڑھے۔

چنانچہ اس وقت صورت حال صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ایسی صورت حال کو برقرار رکھنے میں دونوں ممالک کی فلاح ہے۔ امریکہ محسوس کرتا ہے کہ ہم دئے جارہے ہیں لیکن جواب میں ہمیں بہت کم مل رہا ہے۔ جب کہ بیشتر پاکستانیوں کی سوچ اس کے برعکس ہے۔ اس بنیادی سوچ کو تبدیل کئے بغیر کوئی بھی تعمیری کام مشکل ہے۔ یعنی ایسا تعمیری کام جس کے ذریعے امریکہ مخالف دہشت گرد گروپوں کے لئے عام پاکستانی کی حمایت کم کی جا سکے یا پاکستانی لیڈروں کو قائل کیا جا سکے کہ وہ ایسے گروپوں کی حمایت کرنا یا انہیں پناہ گاہیں مہیا کرنا چھوڑ دیں۔

کیری لوگر بل کی بنیاد میں یہ سادہ سا تصور کار فرما ہے:

2005 میں کشمیر کے زلزلے کے بعد امریکہ نے امدادی کاموں کے لئے تقریباً ایک ارب ڈالر دیے۔ اس کا پھل اسے ایسی عوامی قدر و منزلت کی صورت میں ملا جو کسی بھی سفارتی کوشش سے ممکن نہیں تھا۔ امریکی فوجی عورتیں اور مرد پاکستانیوں کی جانیں بچا رہے تھے اور اس نظارے کو دیکھ کر اس امداد پر اٹھنے والے اخراجات کا خیال بھی نہیں رہتا تھا۔

سینیٹر کیری اورسینیٹر لوگر سمجھتے ہیں کہ ایک مختصر عرصے کے لیے امریکہ دہشت گردی کا مقابلہ صحیح معنوں میں کر رہا تھا اور اس نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا اور وہ یہ جنگ جیت بھی رہا تھا۔ چنانچہ اس قانون کے تحت ہم ویسی ہی صورت حال ایک بار پھر پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم ٹھوس اقدامات کے ذریعے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کے سچے دوست ہیں جس کے لئے زلزلوں یا دہشت گرد حملوں جیسے حادثات و واقعات ہونا ضروری نہیں۔

اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں تو اس میں ہم سب کو بڑا خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ اور پاکستان میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ طالبان جنگ جوؤں نے ظلم وستم کا جال اپنی سرحدوں سے باہر بھی پھیلا لیا ہے۔ چنانچہ یہ امریکہ سے زیادہ اب پاکستان کے فکر کرنے کی بات ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ تاہم امریکہ پاکستانیوں کو مدد اور حمایت دے سکتا ہے جو اعتدال پسندی، علاقائی تعاون اور استحکام کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ ہے کیری لوگر بل کی بنیاد۔

کیری لوگر بل کے اہم نکات:

پاکستان کے لئے امداد میں سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا اضافہ جس کا مقصد پاکستانی عوام کا ساتھ طویل عرصے تک دینا ہے۔

اس میں سات اعشاریہ پانچ ارب ڈالر آئندہ پانچ سال کے لئے مختص کئے گئے ہیں جس میں 2009 سے 2013 تک کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ رکھے گئے ہیں۔ اس کا مقصد اقتصادی ترقی پر زور دینا ہے۔ بل میں، بعد میں آنے والے پانچ سالوں کے لئے مزید ساڑھے سات کروڑ ڈالر کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

بل میں فوجی امداد کو غیر فوجی امداد سے الگ کر دیا گیا ہے۔ ماضی میں فوجی امداد، شہری امداد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ فوج، شہری حکام سے پوچھے بنا من مرضی سے ان رقوم کو اپنے ادارے کے مفاد کے لئے استعمال کرنے کی پالیسیاں وضع کرتی۔ کیری لوگر بل کے تحت معاشی امداد اب فوجی امداد کا بغل بچہ نہیں رہی۔ بلکہ اب اس کی مضبوط اور خود مختار حیثیت ہے۔ دوسری طرف چونکہ پاکستان کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں اس لئے پہلے سے فیصلہ کرنے کے بجائے ہر سال اس کی ضروریات کا جائزہ لے کر سکیورٹی کے لیے امداد کا تعین کا جائے گا۔

اس کے ذریعے فوجی امداد پر شرط عائد ہے کہ مندرجہ ذیل کی پہلے سے تصدیق کی جائے کہ پاکستانی فوجیں:

انتہائی کوششیں کریں کہ القاعدہ اور ان کے حواری گروپ پاکستانی علاقے میں کارروائی نہ کر سکیں۔ وہ ہر ممکن کوشش کریں کہ طالبان پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر حملے کرنے کے لیے بھی استعمال نہ کریں۔ اور نہ ہی وہ پاکستان کے سیاسی یا عدالتی عمل میں مداخلت کریں۔

پاکستان کی امداد کے لئے مفصل لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ اس بل کے تحت امریکی صدر پر لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی معاونت کے سلسلے میں امریکہ کی پالیسی اور طویل المدت منصوبے سے متعلق کانگریس کو تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔ جس میں یہ نکات شامل ہوں:

۔ امریکہ کےبنیادی مقاصد
۔ پاکستان کے مقامی، علاقائی اور قومی اداروں کا کردار
۔ کن کن پراجیکٹوں کے لئے کتنی رقوم مختص کی گئی ہیں اور کیسے طے کیا جائے گا کہ یہ پروگرام کارگر ہیں۔

جو غیر فوجی امداد ہے اس کا مقصد پاکستان کے عوام کو فائدہ پہنچانا ہے۔

پاکستان میں منصفانہ اور جمہوری طریق حکومت ہوگا جس میں محکمہٴپولیس کی اصلاحات، ضروری سازوسامان اور تربیت، آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی نگہداشت، آزاد ذرائع ابلاغ، شفافیت اور خکومت کا احتساب، بدعنوانی کے خلاف تحریک اور منشیات کی روک تھام شامل ہیں۔

اقتصادی آزادی ہوگی جس میں معاشی ترقی اور قدرتی ذرائع کا مکمل استعمال، بجلی اور پانی کے مسائل پر توجہ، ملازمتیں اور ملازمین کے حقوق شامل ہیں۔

عوام کے مسائل پر توجہ دی جائے گی، خاص کر عورتوں اور بچوں کے مسائل حل کئے جائیں گے۔ ان میں عوام کے لئے بنیادی تعلیم اور ہنر سکھانے کے سکول، کھانے کی اشیا میں حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی، زرعی ترقی، صحت عامہ اور اعلیٰ تعلیم شامل ہیں۔

امریکی امداد کے ان پروگراموں کے موثر ہونے کے لئے پیمانے مقرر کیے جائیں گے جن میں باضابطہ طور پر طے کیا جا سکے کہ وہ نتائج حاصل ہوئے ہیں یا نہیں جن کی توقع تھی۔

صدر پر لازمی قرار پاتا ہے کہ وہ کانگریس کو سال میں دو بار ایسی رپورٹ پیش کریں جس میں مفصل بتایا جائے کہ اس ایکٹ کے تحت پاکستان کو کیا امداد دی گئی اورجائزہ لیا جائے کہ وہ کہاں تک کارگر ہوئی۔ اس میں ایسے واقعات کی تفصیل بھی بتائی جائے جن میں اس امداد کے ضیاع، دھوکہ دہی اور غلط استعمال پر تفصیل بھی شامل ہو۔

امریکی وزیر خارجہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ وزیر دفاع اور قومی انٹیلی جینس ڈائریکٹر سے مشاورت کے بعد کانگریس کے سامنے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے بارے میں سالانہ رپورٹ پیش کریں کہ وہاں کیا کیا پیش رفت ہوئی ہے۔

اس بل کے تحت انتظامی اخراجات کے لئے مزید رقوم کی منظوری دی گئی ہے جس میں بیس ارب ڈالر تک آڈٹ کے اخراجات ہونگے اور پچاس لاکھ ڈالر پاکستان میں امریکی سفیر کو دئے جائیں گے تاکہ وہ ترقیاتی کاموں یا انسانی فلاح کے کاموں کے لئے امداد دے سکیں۔

اس بل میں زور دیا گیا ہے کہ اتحادی فوجوں کو امداد دینے والی رقوم کا حساب لیا جائے تاکہ ان کے نصب العین اورکارکردگی کو مزید شفاف بنایا جا سکے۔

اس بل میں امریکی وزیر خارجہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ وزیر دفاع اور قومی انٹیلی جینس ڈائریکٹر سے مشاورت کے بعد، پاک۔افغان سرحدی علاقوں میں باہمی حفاظت کے لئے مفصل لائحہ عمل مرتب کریں۔

XS
SM
MD
LG