رسائی کے لنکس

خمار بارہ بنکوی کی غزل


خمار بارہ بنکوی کی غزل
خمار بارہ بنکوی کی غزل

بیسویں صدی جب آخری ہچکی لے رہی تھی تو اس نے خمار جیسے بانکے غزل گو کو بھی نگل لیا۔ 20فروری سنہ 1999ء کو ان کے آبائی وطن بارہ بنکی میں ان کا انتقال ہوا تھا اور اس کے ساتھ محفلِ جگر کی وہ آخری شمع بھی خاموش ہو گئی تھی۔ جس نے نصف صدی تک مشاعروں کی محفل کو روشن رکھا تھا۔

خمار باکمال اور صاحبِ طرز غزل گو تھے۔ ان کو صرف مشاعروں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے حالانکہ ان کی غزل میں ادبی نقوش ملتے ہیں۔ مشاعرے صرف ایک روایت نہیں بلکہ ثقافت اور درو بست کا ذریعہ بھی رہے ہیں۔ جگر مراد آبادی کے بعد خمار بارہ بنکوی کو مشاعروں میںسب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور خمار نے تو ہندو پاک میں ہی نہیں خلیجی ممالک، انگلینڈ، امریکہ اور کینیڈا میں بھی مشاعرے پڑھے اور اپنی غزلوں کی داد وصول کی۔

خمار کے یہاں جو سادگی اور پر کاری ملتی ہے وہ ان کے کسی ہم عصر شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ ان کے شعر دیکھنے میں تو بہت آسان ہیں لیکن جب سوچیے تو ایسا محسوس ہو گا کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے:

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزہ ہم سے پوچھیئے

ان کے طرز کی ظ انصاری یوں داد دیتے ہیں:

” اگر خمار اردو شاعری کو اپنے اسلاف سے آگے نہیں لے گئے تو نہ سہی، یہ کم ہے کہ اس رنگِ خاص کا بار سنبھالے رہے اور انہوں نے اپنے قدر دانوں کو مایوس نہ ہونے دیا۔ “

اور یہی بات سردار جعفری یوں کہتے ہیں:
’غزل جس کا ہر شعر ہوا کے نرم و لطیف جھونکے کی طرح آئے گی اور گزر جائے گی اور دل میں تازگی کی ایک کیفیت پیدا کر جائے گی، یہ ہے خمار کی شاعری۔‘

خمار کے طرز کی داد جدید شاعر شہریار بھی دیتے ہیں:

” ان کے اشعار میں جو بے ساختگی اور روانی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے۔“

یہ تو خیر خواص ہیں، خمار نے لاکھوں ہی نہیں کروڑوں عوام سے داد و تحسین حاصل کی اور نصف صدی تک ان کا جادو مشاعروں میں چلتا رہا۔ ان کے چار شعری مجموعے بھی شائع ہوئے اور انہیں مقبولیت حاصل ہوئی۔

خمار اپنے نظریہ شاعری کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

” میری شاعری حسن و عشق سے متعلق ہے جب کبھی دل کسی خاص حادثہ یا کسی خاص جذبہ سے متاثر ہو تا ہے، شعر ہو جاتا ہے، جذباتِ حسن و عشق کا تجزیہ ہی میری شاعری ہے۔“

اور یہی جذبہ خمار کی پوری شاعری میں جاری و ساری ہے۔

بس اتنی رہ ورسم ہے زندگی سے
کہ جیسے ملے اجنبی اجنبی سے
جدا ہو کے مجھ سے کوئی جا رہا ہے
گلے مل رہی ہے اجل زندگی سے

کر کے رخصت انہیں جو گھر لوٹے
در و دیوار پر ہنسی آئی
پیار بھی، پیار سے بغاوت بھی
حسنِ خوددار پر ہنسی آئی

وہ کانٹا ہے جو چبھ کر ٹوٹ جائے
محبت کی بس اتنی داستاں ہے

خمار کے یہاں عشق و عاشقی کے ساتھ سرمستی کا جذبہ ہے اور اسی میں وہ حالات حاضرہ کی تلخیوں کو بھی بیان کرتے ہیں:

مجھ کو شکستِ دل کا مزا یاد آگیا
تم کیوں اداس ہو گئے، کیا یاد آگیا

تیرے در سے اٹھے ہی تھے کہ ہمیں
تنگی کائنات یاد آئی

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر، رات باقی ہے

برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
اک بے وفا کا عہد وفا یاد آگیا

آگے جبینِ شوق تجھے اختیار ہے
یہ دیر ہے، یہ کعبہ ہے، یہ کوئے یار ہے

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں
میری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں

بیٹھے ہوئے تھے دیر سے وہ میری یاد میں
مجھ پر نظر پڑی تو خفا ہو کر رہ گئے

ازل سے کہہ رہے ہیں عشق کی روداد سب لیکن
ابھی تک ابتدائے داستان معلوم ہوتی ہے

خمار کا لہجہ خالص رجائی ہے لیکن ان کے یہاں وارداتِ حسن و عشق کی جو خوبصورت ترجمانی ملتی ہے اسے ناقدین ادب نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس پر جو ن ایلیا کے یہ خیالات دال ہیں:

” ان کی غزل کا اولیں مسئلہ عشق ہے جو تمام مسئلوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور عشق ان کی غزل کا اصل معاملہ ہے جس میں سب معاملے سمٹ آئے ہیں:


شاید اسی لیے خمار کہتے ہیں
یہ مصرع نہیں ہے وظیفہ مرا ہے
خدا ہے محبت محبت خدا ہے

اور اسی مصرعے کی تکرار کرتے 20 فروری سنہ 1999ء کو خمار 80 سال کی عمر میں رخصت ہو گئے

دعا یہ ہے نہ ہو ں گمراہ ہم سفر میرے
خمار میں نے تو اپنا سفر تمام کیا

XS
SM
MD
LG