رسائی کے لنکس

کیا پاکستان کو اسامہ آپریشن کا علم تھا؟


کیا پاکستان کو اسامہ آپریشن کا علم تھا؟
کیا پاکستان کو اسامہ آپریشن کا علم تھا؟

وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ایبٹ آباد میں دو مئی کے امریکی آپریشن کو ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ۔ ادھر امریکی صدر براک اوباما نے اپنی قوم اور پوری دنیا کو اس آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے اسے امریکہ کی جانب سے یکطرفہ کاروائی کہا جس کے بارے میں پاکستان کو وقت سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ۔

لیکن حال ہی میں ایک برطانوی جریدے گارڈین کے اس مضمون کی تفصیلات بھی آپ تک میڈیا کے زریعے ضرور پہنچی ہونگی جس کے مطابق پاکستان اس آپریشن کی تفصیلات سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ دس سال قبل امریکہ کو اس کی اجازت بھی دے چکا تھا ۔ مضمون میں یہ بھی کہا گیا کہ اسامہ بن لادن کے لیے کیے جانے والے کسی آپریشن کے بعد پاکستان کا اس پر شدید ردعمل بھی طے شدہ تھا ۔

اگرچہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف اس مضمون کی صداقت سے بھر پور انکار کرچکے ہیں اس سے پاک امریکہ تعلقات کے ایک ایسے رخ پر ضرور روشنی پڑتی ہے جو اکثر عوام کے ذہنوں میں بہت سی غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ رخ ہے ان تعلقات کے مخلتف پہلووں کا عوام کے لیئے دھندلا پن۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیئے جانے والے ڈرون حملوں سے لے کر پاکستان کے لیے امریکی امداد تک ان تعلقات کے کتنے ہی پہلو ایسے ہیں جن کے بارے میں دونوں حکومتوں کے بیانات میں تضاد سننے میں آتا ہے ۔

پاک امریکہ تعلقات کے سینئیر تجزیہ کار مارون وائن بام کہتے ہیں کہ قومی راہنماوں کے فیصلوں میں عوام کو کسی معاملے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہ کرنا انوکھی بات نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسا عوام کو دھوکا دینے کے لیئے کیا جارہا ہے یا اس کی جائز وجوہ جیسے معلومات کو جمع کرنا یا ایسی معلومات کو افشا ہونے سے بچانا ہے جو قومی مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ مشکل فیصلہ ہو تا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ذمے دار راہ نماوں کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمیں ڈپلومیسی اور عوام کی سلامتی کے لیے ضروری عوامل کو متاثر کیے بغیر جس قدر ممکن ہو معلومات پہنچائیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک مارون وائن بام کی رائے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا دھندلا پن ان مشکلات کی عکاسی کرتاہے جن کا سامنا ان دونوں ممالک کو اپنے تعلق میں رہا ہے ۔

وہ کہتے ہیں شفافیت کا فقدان ہمیشہ ممالک کے درمیان مسائل پیدا کرتا ہے ۔ اس میں سے کچھ قدرتی طور پر ملکوں کی اپنی خارجہ پالیسی پر عمل در آمد سے پیدا ہوتا ہے کوئی بھی ملک مکمل طور پر اپنے تمام آپریشنز اور ارادوں کے حوالے سے پوری بات نہیں بتاتا۔

ایک اور تھنک ٹینک بروکنگز سے منسلک خارجہہ پالیسی کے امور کی ماہر وانڈا فل باب براؤن واضح کرتی ہیں کہ صرف عوام ہی نہیں اکثر خود حکومتیں بھی ایک دوسرے کو اپنے تمام معاملات کے تمام پہلووں سے آگاہ نہیں کرتیں ۔

ان کا کہناہے کہ دنیا کے کسی بھی دو ممالک کے مابین یہاں تک کہ اکثر قریبی حلیفوں کے تعلقات میں بھی ہر معاملے کی مکمل تفصیلات ایک دوسرے کو نہیں بتا ئی جاتیں ، اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔

وانڈا کے نزدیک پاک امریکہ تعلقات کے کئی پہلووں میں شفا فیت کی عدم موجودگی کی دو اہم وجوہات ہیں ۔ جن میں ایک تو اعتبار کا فقدان اور دوسرا باہمی تعلقات کی معمول کی نوعیت ۔ دوسرے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جن کے ساتھ تعلقات میں مکمل شفافیت نظر نہیں آتی ۔ ان میں سے ایک میکسیکو ہے جس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کئی عشروں سے خراب تھے ۔ حال ہی میں امریکہ کی جانب سے ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حمل کی روک تھام کے لیے ایک ایسے خفیہ آپریشن کی تفصیل سامنے آ نے پر میکسیکو نے شدید برا منایا تھا۔

وانڈا کے خیال میں پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں امریکی عوام کے لیے معاملات اکثر اتنے دھندلے نہیں ہوتے جتنے پاکستانی عوام کے لیئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ لیکن امریکہ میں بھی حکومت شورش اور دہشت گردی سے نمٹنے کےاپنے آپریشنز سے متعلق تعاون اور دوسرے معاملا ت کی بہت سی تفصیلات بوجوہ اپنے عوام کو نہیں بتانا چاہتی ۔ جیسے آپ معلومات کو ٹارگٹز یا دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہتے او اس لیے بھی کہ اکثر ایسے اقدامات مقامی حکومت کے لیے انتہائی حساس ہوسکتے ہیں ۔پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیئے امریکہ کے ساتھ اپنی بہت سی مصروفیات کے بارے میں انتہائی حساس رہا ہے ۔لہٰذا کئی دفعہ دوسری حکومت کی خاطر بھی تمام تفصیلات کو سامنے نہیں لایا جاتا۔

تاہم اوامہ بن لادن آپریشن کے بارے میں وانڈا کہتی ہیں کہ اگر امریکہ کے پاکستان کو وقت سے پہلے آگاہ کرنے کے حوالے سے خبر سچ ثابت ہوئی تو انہیں انتہائی حیرت ہوگی ۔

XS
SM
MD
LG