رسائی کے لنکس

شمالی کوریا اور ایران کے درمیان جوہری تعاون کی اطلاعات


ایران کی ایک جوہری تنصیب
ایران کی ایک جوہری تنصیب

شمال مشرقی ایشیا کے ذرائع ابلاغ میں، ایٹم بم بنانے کے لیے، ایران اور شمالی کوریا کے درمیان مبینہ تعاون کی تفصیلات شائع ہو رہی ہیں۔ برسوں سے یہ شبہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس قسم کی مشترکہ سرگرمیاں جاری ہیں۔

جنوبی کوریا کی وزارتِ خارجہ اور نیشنل انٹیلی جنس سروس نے کہا ہے کہ وہ ان تازہ رپورٹوں پر تبصرہ نہیں کر سکتے جن کے تحت شمالی کوریا کی ایٹم بنانے کی کوششوں کو ایران کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ ان ایجنسیوں کے شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگراموں پر نظر رکھنے والے عہدے دار کہتےہیں کہ بظاہر یہ الزامات حال ہی میں سفارتکاروں نے افشا ء کیے ہیں اور ان کا تعلق خفیہ اطلاعات سے ہے۔

یہ الزامات انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی یعنی آئی اے ای اے کی گذشتہ منگل کی رپورٹ کے بعد لگائے گئے ہیں۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں آئی اے ای اے نے جتنی رپورٹیں دی ہیں، ان میں یہ رپورٹ سب سے جامع ہے۔ اس میں ایران کی ان خفیہ اور مسلسل کوششوں کی تفصیل بتائی گئی ہے جو وہ 2003 سے اب تک نیوکلیئر بم بنانے کے لیے کرتا رہا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق، ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے مقاصد ، توانائی اور میڈیکل ریسرچ سے کہیں زیادہ ہیں ۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے اعلیٰ مندوب علی اصغر سلطانی نے گذشتہ جمعے کو اس رپورٹ کو جعلسازی قرار دیا اور کہا کہ اس کی بنیاد امریکہ اور اس کے اتحادیو ں کی ناقص انٹیلی جنس ہے۔

25 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اب افشاء کر دی گئی ہے اور اس میں ایران اور شمالی کوریا کے درمیان کسی رابطے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ لیکن گذشتہ جمعے کو، اقوام ِ متحدہ کے تفتیش کاروں نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے 35 رکن ممالک کے سامنے اس معاملے کے ٹیکنیکل پہلوؤں کی وضاحت کی۔ اس کے بعد سے، جنوبی کوریا کے میڈیا میں ، سفارت کاروں کا نام لیے بغیر ، ان سے ایسے بیانات منسوب کیے جا رہےہیں کہ شمالی کوریا کے سینکڑوں سائنس دان اور انجینیئر ز ایران کی نیوکلیئر اور مزائل کی تنصیبات پر کام کرتے رہے ہیں۔

ایک جاپانی اخبار نے لکھا ہے کہ شمالی کوریا کے سائنسداں ایران میں جن تنصیبات پر جاتے رہے ہیں ان میں تین ریسرچ سینٹرز بھی شامل ہیں جن میں نیوکلیئر ہتھیاروں کو داغنے کے عمل کی ہو بہو نقل کے تجربے کیے جاتے ہیں۔

رینڈ کارپوریشن کے بروس بینٹ جو امریکی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے ریسرچ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ماہرین کو برسوں سے شبہ تھا کہ اس قسم کا تعاون جاری ہے۔’’مثلاً اس قسم کی اطلاعات ملتی رہی ہیں کہ شمالی کوریا کے نیوکلیئر ٹیسٹوں میں ایرانی موجود تھے ۔ لہٰذا ، اگر دونوں ملکوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے، تو صورتِ حال کہیں زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ بیشتر لوگ کہیں گے کہ شمالی کوریا کا نیوکلیئر پروگرام ایران سے کہیں آگے ہے، اور ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ ایران کو اس سے مدد ملے۔‘‘

لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے اس سال ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ تعاون دونوں طرف سے ہو رہا ہے ۔ شمالی کوریا کو یورینیم کی افژودگی اور نیوکلیئر سازو سامان جیسے مضبوط فولاد کی تیاری میں ایران پر سبقت حاصل ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگراموں کو بھی ایرانی ٹکنالوجی سے مدد ملتی ہے ۔

رینڈ کوآپریشن کے بینٹ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو شمالی کوریا اور ایران کے درمیان تعلقات پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔’’لیکن اسے روکنا یا اس کی رفتار کم کرنا بھی خاصا مشکل ہو گا۔ لوگ ایسے مقامات سے ہو کر ایران جا سکتے ہیں ،جہاں ہم انہیں روک نہیں سکتے۔‘‘

جنوبی کوریا کی میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کے سائنسداں دوسرے ملکوں، جیسے روس اور چین سے ہو کر خفیہ طور پر ایران میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے سائنسداں ایران میں دس نیوکلیئر اور مزائل تنصیبات پر کام کر رہے ہیں، اور بظاہر چند مہینوں کے بعد وہ واپس چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے لوگ آ جاتے ہیں۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ نے 7 نومبر کو اطلاع دی کہ مغربی ملکوں کے سفارتکاراور نیوکلیئر ماہرین جنہیں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مندرجات کے بارے میں بریف کیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ ایران اس اہم ٹکنالوجی کے ذریعے جس کا تعلق شمالی کوریا اور پاکستان سے ہے، نیوکلیئر اسلحہ کی تیاری کے بہت قریب پہنچ گیا ہے ۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے اتوار کو ہوائی میں APEC سربراہ کانفرنس کے اختتام پر رپورٹروں کو بتایا کہ ایران کے خلاف پابندیاں انتہائی موئثر ثابت ہوئی ہیں، اور وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے، مزید اقدامات کے بارے میں دوسرے ملکوں کے ساتھ صلا ح و مشورہ کریں گے ۔

XS
SM
MD
LG