رسائی کے لنکس

بحری جہاز ڈوبنے کے واقعہ سے دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ


بحری جہاز ڈوبنے کے واقعہ سے دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ
بحری جہاز ڈوبنے کے واقعہ سے دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

جنوبی کوریا کی جانب سے ابھی شمالی کوریا کو مارچ میں اپنی نیوی کے ایک بڑے بحری جہاز ڈوبنے کے مہلک واقعہ کا براہ راست ذمہ دار ٹہرایا جانا باقی ہے۔اب بھی جنوبی کوریا کے بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ پیانگ یانگ اس میں ملوث ہے۔ اگر یہ تعلق ثابت ہوجاتا ہے تو جنوبی کوریا کے پاس قلیل مدت میں اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے چند طریقے موجود ہیں۔

دنیا کے کسی بھی دوسرے دو ملکوں کی طرح،بحریہ کے کسی جہاز کا ایک آب دوز کے ذریعے تباہی کے نتیجے میں ، جس میں عملے کے 46 افراد ہلاک ہوجائیں ، دونوں کوریاؤں کے درمیان ایک کھلی جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔مارچ میں جب جنوبی کوریا کاایک جنگی جہاز ایک متنازع سمندری سرحد پر گشت کے دوران جب دھماکے سے تباہ ہوا تو جنوبی کوریا کے بہت سے لوگوں کابھی یہی خیال تھا۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں شمالی مشرقی ایشیا کے ایک تجزیہ کار ڈین پنک سٹن کہتے ہیں کہ تفتیش کاروں نے شمالی کوریا کے کسی عمل دخل کی تصدیق کردی تو جنوبی کوریا کے پاس طاقت کے استعمال کا یقینی حق موجود ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک احمقانہ ردعمل میں ہوگا اور اس اقدام کا صرف اور صرف نقصان ہی ہوگا۔

شمالی اور جنوبی کوریا تکیکی لحاظ سے حالت جنگ میں ہیں اوران دونوں کے درمیان واقع سرحد دنیا میں سب سے زیادہ فوجی طورپر ہتھیار بند ہے۔اگرچہ امریکہ اور جنوبی کوریا ، دونوں کی فورسز کو ، کم تر وسائل رکھنے والی شمالی کوریا کی فوج کے مقابلے میں کہیں بہتر سمجھا جاتا ہے، لیکن شمالی کوریا کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی اس کی جانب سے ہزاروں راکٹوں اور توپوں کے گولے داغے جانے کا سبب بن سکتی ہے ، جن کا زیادہ تر نشانہ سؤل ہوگا۔

فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں جنوبی کوریا کے دارلحکومت میں صرف چند گھنٹوں کے اندراندر ہزاروں لوگ مارے جاسکتے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہناہے کہ سیکیورٹی کی صورت حال میں کسی واضح تبدیلی کے نتیجے میں جنوبی کوریا کی تجارت اور سرمایہ کاری کو بری طرح نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر اس کی معیشت کاانحصار ہے۔ اور جس سے اس کی بین الاقوامی مالیاتی حیثیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ دوسرے مبصرین کہتے ہیں کہ جنوبی کوریا کی جانب سے کوئی فوجی ردعمل شمال کوریا کے لیے پراپیگنڈے کے حق میں بہتر ہوگا اور اس کی حکومت کی حمایت بڑھے گی۔

مسٹر پنگ سٹن کہتے ہیں کہ جنوبی کوریا کو چاہیے کہ وہ شمالی کوریا پر حملوں کی بجائے علاقائی سیکیورٹی کی تنظیم میں اپنے کردار میں اضافہ کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں شمالی کوریا کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ جمہوریہ کوریا ’سیکیورٹی کے پھیلاؤ میں اضافے کی مہم ’کے ایک رکن کے طورپر اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کرے گا۔

90 سے زیادہ ملک امریکہ کی جانب سے 2003ء میں شروع کی جانے والے اس پروگرام میں شامل ہیں۔ یہ پروگرام وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے انٹرنیشنل انٹیلی جنس اور بحریہ کی سرگرمی کومربوط کرتا ہے۔ جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے ساتھ کشید گی میں کسی اضافے سے بچنے کے لیے خود کو ایک مبصر کی حیثیت تک محدود رکھا ہے۔

جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ باک منگل کےروزاپنے اعلیٰ فوجی عہدے داروں کے ساتھ سیکیورٹی کےمتعدد اقدامات پر گفتگو کرنے والے ہیں۔ پنگ سٹن کہتے ہیں کہ چیونن کے واقعہ سے آخرکار جمہوریہ کوریا کا ردعمل آخر کار شمالی کوریا کی سیکیورٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔تاہم قلیل مدت میں جنوبی کوریا نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ چیونن کی غرقابی کےمعاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جاکر ایک سفارت کارانہ انداز اپنائے گا۔

سلامتی کونسل شمالی کوریا پر پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کے اس کے دو تجربات کی بنا پر بھاری پابندیاں عائد کرچکی ہے اور چند ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی نئی پابندیوں کی گنجائش موجود ہے۔تاہم سؤل میں کوریا کے دفاعی تجزیے کے انسٹی ٹیوٹ کے بائک سیونگ جو کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ارکان مثلاً چین کو یہ یادہانی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ موجودہ پابندیوں پر عمل درآمد میں اضافہ کردے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شمالی کوریا کے عوام کو بیرونی دنیا سے اطلاعات براہ راست پہنچانے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیں اور اس سلسلے میں براڈکاسٹنگ جیسی ٹیکنالوجیز استعمال کرتے ہوئے کو ئی منظم طریقہ اختیار کرناچاہیے۔

شمالی کوریا کے کچھ دانش وروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکام اس کو شروع شروع میں تو پسند نہیں کریں گے تاہم جنوبی کوریا کو کائی سانگ میں ایک مشترکہ انڈسٹریل زون چلاتے رہنا چاہیے کیونکہ یہ دونوں ملکوں کو آخر کار متحد کرنے کے لیے ایک مفید اقدام ہوگا۔ وہ کہتےہیں جنوبی کوریا اور امریکہ کو شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق چھ ملکی مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کو ترک کردینے سے شمالی کوریا کو مزید ہتھیار بنانے کا ایک اور بہانہ مل جائےگا۔

XS
SM
MD
LG