رسائی کے لنکس

اصلی جیسا نقلی گوشت


اصلی جیسا نقلی گوشت
اصلی جیسا نقلی گوشت

صرف پانچ سال کے بعد آپ کو مارکیٹ میں مرغی ، بکری اور گائے وغیرہ کا ایسا گوشت ملنا شروع ہوجائے گا جو ان کے گلے پر چھری چلا کرنہیں بلکہ لیبارٹری میں کلوننگ ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل کیا جائے گا۔ اسے وہ لوگ بھی کھا سکیں گے جو اپنے عقائد کی بنا پر جانوروں کو ہلاک کرنے کے خلاف ہیں۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ مصنوعی گوشت کے بعد جانوروں کی ضرورت نہیں رہے گی اور گلوبل وارمنگ سے نجات کے لیے انہیں ختم کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

صرف پانچ سال کے بعد بازار میں ایسا گوشت ملناشروع ہوجائے گا جو ہوگا تو مرغی ، بکری اور گائے کا ہی گوشت ، مگر وہ ان کی گردن مار کرنہیں بلکہ لیبارٹری سے حاصل کیا جائے گا۔

کلوننگ بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے آکسفورڈ یونیوسٹی کے سائنس دانوں نے لیباٹری میں اصل جین کی افزائش کے ذریعے حقیقی گوشت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

گذشتہ چند برسوں سے مارکیٹ میں ٹوفو کے نام سےنقلی گوشت فروخت کیا جارہاہے جو عموماً سویا بین سے تیار کیا جاتا ہے۔ نقلی گوشت کا ذائقہ تو گوشت سے ملتا جلتا ہوتا ہے مگر اس کی ساخت اور دوسری صفات گوشت جیسی نہیں ہوتیں۔ لیکن لیبارٹری میں بنایا جانے والا گوشت ہر لحاظ سے اصلی گوشت جیسا ہوگا اور ابتدائی مراحل میں اسے اصلی جانوروں کے جین کی افزائش کے ذریعے تیار کیا جائے گا۔

اصلی جیسا نقلی گوشت
اصلی جیسا نقلی گوشت

ماہرین کا کہناہے کہ لیبارٹری کا گوشت وہ لوگ بھی استعمال کرسکیں گے جو اپنے عقائد کی بنا پر محض اس وجہ سے گوشت نہیں کھاتے کیونکہ وہ اپنی خوراک کے لیے جانوروں کو ہلاک کرنے کے خلاف ہیں۔

مصنوعی گوشت کی تیاری پر امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں بائیو سائنس دان کئی برسوں سے کام کررہے ہیں ، اور اس پر امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی حکومتوں نے ایک بڑی انعامی رقم کا اعلان بھی کررکھاہے۔ تاہم اس سفر میں پہلی کامیابی حاصل کی ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ 2050 تک دنیا کی آبادی نوارب تک پہنچ جائے گی اورموجودہ وسائل انسان کی غذائی ضروریات پوری نہیں کرسکیں گے۔ خاص طورپر پروٹین کی ضروریات ، جو زیادہ تر گوشت سے حاصل ہوتے ہیں۔

اصلی جیسا نقلی گوشت
اصلی جیسا نقلی گوشت

آنے والے پندرہ سے بیس برسوں میں گوشت کی زیادہ تر ضروریات مصنوعی گوشت کی طرف منتقل ہوجائیں گی اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ نصف صدی کے بعدانسان کلی طور پر لیبیارٹری کے گوشت پر انحصار کررہا ہوگا اور غذائی ضروریات پوری کرنے والے جانوروں کوزمین پر ایک بوجھ سمجھا جانے لگے گا۔

جریدے’انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جانور بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرتے ہیں جس سے عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا نے گلوبل وارمنگ پر کنٹرول کے سلسلے میں جنگلی اونٹوں کو مارنے کا قانون منظور کیا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہناہے کہ گائے اونٹوں سے بھی زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتی ہیں اور دنیا میں ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ فی الحال ان کی جان بخشی اس لیے کی جارہی ہے کہ وہ انسانی خوراک کا ایک بڑا حصہ پورا کررہی ہیں۔ لیکن مصنوعی گوشت اور مصنوعی دودھ کے بعد یقینی طورپر ان کا انجام بھی آسٹریلیا کے اونٹوں سے مختلف نہیں ہوگا۔

کارخانوں کی چمنیوں سے کاربن گیسوں کا اخراج کنٹرول کرنے کے سلسلے میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنسیں کئی برسوں سے مسلسل ناکام ہورہی ہیں، کیونکہ کوئی بھی ملک اپنی صنعتی پیدوار کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہے اوراب اس نئی پیش رفت کے بعد یہ پھندہ جانوروں کے گلے میں ڈالنے کی راہ مزید ہموار ہونے کی توقع ہے۔

اصلی جیسا نقلی گوشت
اصلی جیسا نقلی گوشت

ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی 18 فی صد ذمہ داری جانوروں پر عائد ہوتی ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ یہ شرح دنیا بھر کے ہوائی جہازوں اور سڑکوں پر دوڑنے والی ٹرانسپورٹ کی مجموعی سطح سے زیادہ ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہناہے کہ کاربن گیسیں پیدا کرنے والی بہت سی صنعتیں جانوروں سے منسلک ہیں۔ ان سے چھٹکارہ پاکر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 96 فی صد تک گھٹایا جاسکتا ہے۔

لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے گوشت کے حق میں سائنس دانوں نے یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ اسے تیار کرنا آسان، کم قیمت اور سستاہے۔ مصنوعی گوشت کی تیاری پر جانوروں کے مقابلے میں 45 فی صد کم توانائی استعمال ہوتی ہے ۔ اور جانوروں کے زیر استعمال زمین کے مقابلے میں مصنوعی گوشت کے لیے محض ایک فی زمین اور چار فی صد پانی درکار ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے پروٹین سے مصنوعی گوشت بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ دودھ سے دہی تیار کرنا۔

اصلی جیسا نقلی گوشت
اصلی جیسا نقلی گوشت

مصنوعی گوشت کی تیاری کے پراجیکٹ کی سربراہ اورآکسفورڈ یونیورسٹی کی سائنس دان ہانا ٹومسٹو کا کہناہے کہ یہ کامیابی کم تر وسائل کے ساتھ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔

لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا پہلا گوشت قیمے کی شکل کا ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ بوٹیوں کی شکل میں گوشت کی تیاری میں ابھی کچھ وقت لگے گا، تاہم آئندہ چند برسوں میں صارفین کو اپنی پسند کے مطابق ران، چانب، گردن اور دوسری اقسام کا مصنوعی گوشت بھی حاصل کرسکیں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ نصف صدی کے بعد مصنوعی گوشت خوراک کے حصول کاسستا ترین ذریعہ بن جائے گا ۔ بھارت اور چین جیسے گنجان آباد اور غریب افریقی ملکوں کی زیادہ تر غذائی ضروریات مصنوعی گوشت سے پوری کی جانے لگیں گے ۔

آنے والے دور میں جب مصنوعی گوشت عام اور غریب آدمی کی خوراک بن جائے گا، بہت ممکن ہے کہ تب اہم شخصیات کی تواضع دال روٹی سے کی جایا کرے گی۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG