رسائی کے لنکس

’دیہی خواتین کو زمین ملنے سے تشدد کے واقعات میں کمی آئی‘


ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، جِن خواتین کو زمین کی جائیداد حاصل ہے، انھیں معاشرے میں اہمیت حاصل ہوئی، اور ان خواتین کو نہ صرف فیصلہ سازی میں برابر کی شریک کیا جاتا ہے، بلکہ اس زمین کی بدولت ان پر تشدد میں کافی حد تک کمی کا سامنا رہا ہے

سندھ کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 80 فیصد سے زائد خاندانوں کا ذریعہٴ معاش کاشتکاری ہے، جبکہ کاشتکاری کرنے والے اس طبقے میں دیہات کی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ صبح سے شام تک کھیتوں میں جُتی رہتی ہیں۔

دیہاتوں میں جاگیردارانہ نظام کے نیتجے میں، کاشتکاری سے منسلک ایک بڑا طبقہ اکثر زمین کی ملکیت سے محروم رہتا ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، جو زمین جیسی ملکیت سے محروم رہتی ہیں۔ ایسے میں اگر سندھ کی دیہی خواتین کو زمین کی ملکیت حاصل ہوجائے تو اسکے باعث انھیں معاشرے میں ایک مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔

اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، حکومت سندھ کی جانب سے سال 2008 ءمیں سندھ کے مختلف اضلاع میں دیہی خواتین میں زمین کی تقسیم کی ایک اسکیم شروع کی گئی تھی، جسمیں کئی خواتین میں زمین تقسیم کی گئی، جبکہ پہلے سے ملکیت رکھنے والے خاندانوں کو کئی زمینوں سے قبضہ چھڑوا کر انھیں ملکیت سونپ دی گئی تھی۔

دیہی خواتین میں زمین حاصل کرنے کے بعد جو تبدیلیاں آئیں، اس کا جائزہ لینے کیلئے غیر سرکاری تنظیم ’شرکت گاہ‘ کی جانب سے ایک ریسرچ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔

اس غیر سرکاری تنظیم کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق، جن خواتین کو زمین جیسی جائیداد حاصل ہے انھیں معاشرے میں اہمیت حاصل ہوئی۔ اُن خواتین کو نہ صرف فیصلہ سازی میں برابر کی شریک کیا جاتا ہے، بلکہ اس زمین کی بدولت ان پر تشدد میں کافی حد تک کمی کا سامنا رہاہے جو ایک مثبت اقدام ہے۔

کراچی میں غیر سرکاری تنظیم ’شرکت گاہ‘ کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب کے عنوان ’وین دیئر از دی لینڈ، دیئر از ہوپ‘ (یعنی جہاں زمین وہاں امید) کے نام سے خواتین کے جائیداد میں حصے اور زمین کے حقوق کے بارے پینل گفتگو کی گئی۔

تقریب سے گفتگو میں، غیر سرکاری تنظیم ’شرکت گاہ‘ کی رکن فریدہ شاہ کا کہنا تھا کہ، ’موجودہ دور میں عورتوں کو دیگر حقوق کےساتھ ساتھ زمین و ریاست کے حقوق بھی نہیں دئے جاتے۔ جہاں خواتین کو زمین کی ملکیت حاصل ہے وہیں انھیں معاشرے میں ایک مقام اور درجہ بھی حاصل ہوا ہے۔‘

فریدہ شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں، خصوصاً دیہی خواتین کے نام پر، اکثر جائیدادیں خاندان کے مرد حضرات کے نام یہ سوچ کر کر دیجاتی ہیں کہ مرد اس کی بہتر دیکھ بھال کرسکتا ہے۔ مگر، خواتین خوشی سے یہ سب نہیں کرتیں ان پر خاندان کی جانب سے دباوٴ ڈالا جاتا ہے، اور یوں، بڑی تعداد میں خواتین جائیداد کے حق سے محروم ہوجاتی ہیں‘۔

دیہی خواتین کی زمین کی تقسیم کے حوالے سے رپورٹ کی محقق، حوریہ حیات خان نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں بتایا کہ اب تک سندھ کے 17 اضلاع میں 6 ہزار خواتین کو زمینیں دی گئی ہیں جو اب ان کی ملکیت ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ زمین کتنی اور کیسی ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ جن کو نہیں ملی ہیں اُن کو اگلے مرحلے میں مزید زمینیں دیجائیں گی۔ حکومت دیکھے گی کہ کونسی خاتون کو کس طرح زمینیں دی جائے گی اور وہ اس ہر کیا کاشت کریں گی۔ اُسے، کیسے استعمال کریں گی‘۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’سندھ کے ان ہی اضلاع میں کئی خواتین اس سے آگاہ ہی نہیں کہ سندھ حکومت نے زمین دینے کا اعلان کیا تھا‘۔ خواتین کے موٴقف کے حوالے سے کہتی ہیں کہ اس میں دو قسم کی زمینیں ہیں۔ ایک وہ جن کو پہلی بار زمین دی گئی، جبکہ دوسری وہ جس پر زمینداروں اور وڈیروں کا ناجائز قبضہ تھا۔

حوریہ کا مزید کہنا ہے کہ ’حکومت کو چاہئیے کو وہ کاشتکار خواتین کو اس زمین ہر کاشتکاری کیلئے سپورٹ کرے، سول سوسائٹی اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کو آگاہی فراہم کرنے کے طریقوں کا استعمال کرے‘۔

اس غیر سرکاری تنظیم کی ترجمان، حمیدہ کلیم کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے خواتین کو زمینیں تو فراہم کردی گئیں ہیں، مگر ان کو صحیح استعمال کے طریقے نہیں بتائے گئے۔ علاوہ ازیں، کاشتکاری کیلئے جو مراعات دی گئیں ہیں وہ ناکافی ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ تنظیم کی جانب سے حکومت سندھ کی زمین پانےوالی 32 خواتین کے انٹرویوز پر مشتمل ایک رپورٹ میں مختلف پہلو سامنے آئے ہیں، جسمیں اہم مسئلہ دیہی خواتین میں آگاہی و شعور کی کمی کا ہے۔
XS
SM
MD
LG