رسائی کے لنکس

ترقی، کامیابی اور معاشی استحکام کے سفر پہ گامزن، لبنان


بیروت کی کامیابی اس کی خوبصورت تعمیروں میں آشکار ہے
بیروت کی کامیابی اس کی خوبصورت تعمیروں میں آشکار ہے

لبنان کی موجودہ تاریخ میں قنوطیت پسندوں کی دل بستگی کا کافی سامان موجود ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اس ملک نے سالوں طویل خانہ جنگی جھیلی، شام کا بلواسطہ اقتدار برداشت کیا، اسرائیل کا مقبوضہ رہا، کئی ایسے قتل سہے جنہوں نے اسکی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا، معاشرتی بے چینی کا سامنا کیا، اور پھر گزشتہ ماہ ہونے والا سرحدی تنازعہ جس نے ایک نئی لبنان۔ اسرائیل جنگ کے خدشات کو سر اٹھا نے کا موقع دیا۔ جدید لبنان کی تاریخ ان سب واقعات سے عبارت ہے۔

تاہم اس تمام تر غیر یقینی وکشیدگی کے باوجود بیروت کے چوراہوں پہ موجود عالیشان بوتیک اور آسمان سے باتیں کرتے رہائشی پلازے اور فائیو اسٹار ہوٹلز تصویر کا ایک اور ہی رخ پیش کرتے ہیں، جو روشن بھی ہے اور امید افضاء بھی۔

مایوس کن اور ابتر ماضی سے امید اور ترقی کے حال کی طرف لبنان کے اس پرعزم سفر کی روداد وہ تصویر بیان کرتی ہے جو بیروت کے ایک بڑے ریئل اسٹیٹ ایڈوائزر راجہ مکرم کے نفاست سے سجے دفتر میں آویزاں ہے ۔ اس بلیک اینڈ وہائٹ تصویر میں شہر کے وسط میں واقع علاقائی فنِ تعمیر کی شاہکار ایک بڑی اور قدیم عمارت کو دکھایا گیا ہے۔ پرشکوہ، وسیع، خوبصورت، لیکن جابجا گولیوں سے چھلنی۔

مکرم کا کہنا ہے کہ ان کے دفتر میں اس تصویر کی موجودگی کا سبب یہ نہیں ہے کہ ان کے ذہن میں لبنان کے پرتشدد ماضی کی یاد تازہ رہے۔ بلکہ ان کے مطابق یہ تصویر انہیں ایک روشن اور پرامن مستقبل کی امید دلاتی ہے۔

"رامکو" نامی ریئل اسٹیٹ فرم کے ڈائریکٹر مکرم کہتے ہیں:"چند ہفتے قبل میں یہاں اپنے آفس میں ایک دوست کو ایک بڑے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے پہ آمادہ کررہا تھا ۔ اس پرجیکٹ کی مالیت 100 ملین ڈالرز سے زائد ہے۔ باتوں باتوں میں میں نے یونہی اس سے پوچھا کہ کہیں وہ بیروت میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنے سے گھبرا تو نہیں رہا۔ آپ جانتے ہیں اس کا جواب کیا تھا؟ اس نے کہا، 'ہرگز نہیں۔چاہے کچھ ہوجائے مجھے یقین ہے کہ لبنان اب ایسا ہی رہے گا۔ سو مجھے کوئی پریشانی نہیں'۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم لبنانیوں کو اب یقین ہوچلا ہے کہ لبنان کے حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہوسکتے جتنے کبھی ماضی میں ہوا کرتے تھے"۔

لبنان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

دنیا کے بہت سے دیگر ممالک بالکل لبنان جیسے ہی حالات سے گزرے ہیں ، وہاں کے عوام نے بھی ویسی ہی مشکلات کا سامنا کیا جیسی کہ سالہا سال تک لبنانی جھیلتے رہے، اور انہوں نے بھی لبنانی قوم کی طرح تخریب سے تعمیر اور مایوسی سے امید کی طرف سفر کیا۔ تاہم بہت کم قومیں بحرانوں سے نبرد آزما ہو کر اس طرح آگے بڑھ پائیں جیسے کہ لبنانی قوم ۔

مکرم کہتے ہیں کہ لبنان کی اس حیرت انگیز کارکردگی کا ایک راز یہ ہے کہ اس کی کئی کامیابیوں کی وجہ اسکی وہ مشکلات اور مسائل بنے جو اسے جھیلنے پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرتی عدم توازن اور پے در پے بحرانوں کے باعث لبنانی عوام، خصوصآً تعمیراتی شعبے سے وابستہ حضرات قرض لینے کے بجائے ذاتی سرمایہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق لبنانی بلڈرز اور تعمیراتی ٹھیکیدار 100 فیصد کیش پہ زمین خریدتے ہیں اور اپنے سودوں کیلیے بینکوں پہ انحصار کرنے کے بجائے ممکنہ تعمیرات کی پیشگی فروخت کی راہ اپناتے ہیں۔

مکرم کے نزدیک یہی وجہ ہے کہ جب دنیا بھر کی اقتصادیات معاشی بحران کی زد میں آئی توچونکہ لبنان کے ایک بھی ڈویلپر پر کسی بینک کا قرض واجب الادا نہیں تھا لہذا ان کا ملک بآسانی عالمی معاشی بحران کی زد سے نکل آیا۔

سرمایہ کار دوست قوانین، صارفین دوست بینکنگ

لبنان میں نجی جائیداد وں سےمتعلق مضبوط قوانین بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ عشروں پہ محیط تباہ حالی اور بدنظمی کے باوجود ملکی قوانین سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد قبضہ شدہ اور تباہ ہونے والی زمینوں کے مالکان کو ان کی املاک بآسانی واپس مل گئیں۔

لبنان کی مثبت روایات نے ملک کے بینکنگ کے نظام کو بھی خانہ جنگی اور حالات کی خرابی کے اثرات سے بچائے رکھا۔ بیروت میں قائم "کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر" کے ڈائریکٹر اور سیاسی تجزیہ کارپال سلیم کہتے ہیں کہ لبنان کو سرمایہ کاری کیلیے ایک پرکشش مقام بنانے میں یہاں کے بینکنگ نظام کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ لبنان میں پوشیدگی (سیکریسی) کی بنیاد پہ استوار بینکنگ کا نظام سلیم کے مطابق دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد نظام ہے، جبکہ بینک ڈپازٹس پہ دیے جانے والے نسبتاً ہائی انٹرسٹ ریٹ کی وجہ سے بھی سرمایہ کار لبنان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

سلیم کا کہنا ہے کہ حکومت اور بینکوں کا باہمی تعاون دونوں کی بہتری اور ترقی کیلیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔بینک حکومت کو ڈیبٹ فنانسنگ اور ٹریژری بونڈز کی خریداری کے ذریعے مدد فراہم کرتے ہیں جبکہ حکومت جواباً بینکوں کو ترقی کے مواقعوں کی فراہمی اور ان کے کاروبار کی حفاظت یقینی بناتی ہے۔

پال سلیم کے مطابق دوطرفہ مفادات کی حفاظت کے انہی انتظامات کی بدولت لبنان عرب سرمایہ کاروں کیلیے ایک پرکشش مارکیٹ بن چکا ہے جن میں سے کئی دبئی جیسی اقتصادی مارکیٹس سے پلٹ کر یہاں آرہے ہیں۔

سیاحت دوست ماحول اور آسائشیں

لبنان عرب ممالک کے باشندوں کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں کیلیے کئی اور حوالوں سے بھی پر کشش حیثیت رکھتا ہے۔ جن میں سرِ فہرست یہاں کا سیاحت دوست ماحول ہے۔ اسکائینگ کیلیے سازگار پہاڑ، بحرِ اوقیانوس کے سنہری ساحل اور دنیا کے ہر شہر، ہر ملک اور ہر تہذیب کے باشندے کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھنے والا ایک کاسموپولیٹن ماحول ، جس کا سہرا لبنان کی بین المذہبی آبادی اور برداشت، رواداری اور احترام کے اصولوں پہ قائم لبنانی معاشرے کے سر ہے۔

اسٹیٹ ایڈوائزر مکرم کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں موجود لاکھوں لبنا نی تارکینِ وطن کی اکثریت بھی متذکرہ عوامل کے باعث اپنے ملک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتی ہے۔

تاہم اعتماد کی یہ فضاء کبھی کبھار متاثر بھی ہوتی ہے لیکن اس کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہونے پاتا۔

مکرم کے الفاظ میں "جب بھی کوئی سنگین واقعہ رونما ہوتا ہے، چاہے وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحدی جھڑپ ہو یا لبنانی گروہوں کی آپس کی لڑائی یا کچھ اور، عوام اور سرمایہ کار کچھ پریشان ہوجاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کوئی مثبت تبدیلی عمل میں آتی ہے، سب کچھ پہلے کی سی صورت میں لوٹ آتا ہے۔ در حقیقت ملک کے دیرپا مستقبل کے بارے میں یہاں کی عوام کو کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا اور ہمارے ملک کا مستقبل روشن ہے"۔

مکرم کی پیش گوئی ہے کہ جب تک لبنان کا موجودہ نظام ، جو عشروں کی چپقلش اور خانہ جنگیوں کے دوران پروان چڑھا ہے، برقرار ہے، یہ ملک سرمایہ کاروں کی جنت بنا رہے گا۔

XS
SM
MD
LG