رسائی کے لنکس

لیبیا کارروائی: صدر اوباما کی دفاعی حکمتِ عملی کی آزمائش تھی


لیبیا کارروائی: صدر اوباما کی دفاعی حکمتِ عملی کی آزمائش تھی
لیبیا کارروائی: صدر اوباما کی دفاعی حکمتِ عملی کی آزمائش تھی

صدر اوباما نے کہا ہے کہ لیبیا کے مکمل جمہوریت تک جانے کا راستہ طویل اور دشوار ہے تاہم، امریکہ اور بین الاقوامی برادری بدستور لیبیا کے عوام کے بارے میں پُر عزم ہے

لیبیا کے سابق لیڈر کرنل محمد قذافی کی موت لیبیا میں اُن فوجی کارروائیوں کے آغاز کے ٹھیک سات ماہ بعد واقع ہوئی ہے جِن کی ابتدا میں امریکہ نے قیادت کی، تاہم بعد میں اُنھیں نیٹو کو منتقل کردیا گیا۔

وہائٹ ہاؤس میں ’وائس آف امریکہ‘ کے سینئر نامہ نگار ڈین رابنسن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ لیبیا میں ہونے والی کارروائی صدر براک اوباما کی دفاعی حکمتِ عملی کی ایک کلیدی آزمائش تھی۔

گذشتہ مارچ کی 28تاریخ کو صدر اوباما نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ لیبیا کے اُن سویلین باشندوں کے تحفظ میں مدد کرنے کی امریکہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے جِن کو معمر قذافی سے خطرہ ہے اور یہ کہ لیبیا میں امریکی مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔

گذشتہ مارچ میں امریکہ کے کروز میزائل اور فرانس کے فضائی حملوں سے شروع ہونے والی فوجی مہم نے نیٹو کے زیرِ کمان آپریشن کی شکل اختیار کر لی اور یہ مسٹر اوباما کے اُس عزم کی آزمائش بھی تھی جو فوجی کارروائی کا بوجھ کلیدی اتحادیوں اور ساجھے داروں میں بانٹنے سے متعلق تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کی پالیسی کلیدی اصولوں پر مبنی ہوگی جِن میں عالمگیر حقوق کے لیے اور اُن حکومتوں کے لیے حمایت شامل ہے جو اپنے عوام کی امنگوں کا جواب دیتی ہوں۔

جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں تقریر کرتے ہوئے اُنھوں نے اِنہی اصولوں کو دہرایا۔

صدر نے کہا کہ آج کے واقعات نے ایک بار پھر خطے کے لیے یہ ثابت کیا ہے کہ آہنی گرفت کے ذریعے کی جانے والی حکومت بالآخر ختم ہوجاتی ہے۔ پوری عرب دنیا میں شہری اپنے حقوق کا دعویٰ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ نوجوان آمریت کے خلاف بھرپور تنقید کررہے ہیں اور جو راہنما اُن کے انسانی احترام کو مسترد کرنے کی کوشش کریں گے، کامیاب نہیں ہوں گے۔

مشرقِ وسطیٰ کے ایک جہاندیدہ ماہر ، ایرن مِلر چھ امریکی وزرائے خارجہ کے مشیر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لیبیا کے واقعات مسٹر اوباما کے اُس فیصلے کا جواز فراہم کرتے ہیں جو لیبیا کے باشندوں کو قذافی کو معزول کرنے کے لیے مقابلتاً کم لاگت پر مشتمل امریکی سرمایہ کاری سے متعلق تھا۔ تاہم، اُس کے وسیع تر مضمرات واضح نہیں ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ہم جو کچھ لیبیا اور دوسرے عرب ملکوں میں کیا ہم شام میں نہیں کرسکتے۔ سعودی عرب اور اردن کو آخر اِس نوعیت کی زیادہ سے زیادہ اصلاحات اور انسانی حقوق کے زیادہ احترام جیسے مطالبات کا سامنا ہوگا۔

مِلر کہتے ہیں کہ عرب موسمِ بہار کے تمام ملکوں پر کسی ایک واحد ماڈل کا اطلاق کرنا بدستور دشوار ثابت ہوگا۔

کونسل آن فارین رلیشنز کے لیسلی گیلب کہتے ہیں کہ لوگ اِس کے بارے میں بحث و مباحثہ شروع کریں گے آیا ہمیں آمروں سے نجات دلوانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیئے یا نہیں۔تاہم، اُنھیں جلد ہی پتا چلے گا کہ اِس نوعیت کی پالیسی تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ سعودی آمر ہیں۔ کیا ہم اُن کا تختہ الٹنے میں مدد کرنے جارہے ہیں؟ نہیں۔ اِس کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ایرن مِلر کہتے ہیں کہ ری پبلیکنز کو جو سنہ 2012 میں مسٹر اوباما کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، ووٹروں کو اِس بارے میں قائل کرنے میں دشواری کا سامنا ہوگا کہ خارجہ پالیسی میں مسٹر اوباما نے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔

کونسل آن فارین رلیشنز کے لیسلی گیلب کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما کے داخلی پالیسی کے اثرات کی سطح کا انحصار لیبیا میں آئندہ ہونے والے واقعات پر ہوگا۔

اُن کے بقول، ہمیں آنے والے مہینوں اور برسوں میں دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ ملک مغربی مفادات اور نظریات کی مخالفت کا گڑھ بن گیا ہے اور یا یہ معجزانہ طور پر جمہوریت کی جانب جا رہا ہے۔

جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں اپنے بیان میں صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کسی واہمے کا شکار نہیں ہے اور یہ کہ لیبیا کے مکمل جمہوریت تک جانے کا راستہ طویل اور دشوار ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری بدستور لیبیا کے عوام کے بارے میں پُر عزم ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG