رسائی کے لنکس

لیبیا: إمریکی اخبارات نےباغیوں کی کامیاب کارروائیوں کو نمایاں طور پرشائع کیا


لیبیا: إمریکی اخبارات نےباغیوں کی کامیاب کارروائیوں کو نمایاں طور پرشائع کیا
لیبیا: إمریکی اخبارات نےباغیوں کی کامیاب کارروائیوں کو نمایاں طور پرشائع کیا

امریکہ میں شائع ہونے والے تقریباً سبھی اخبارات نے صفحہٴ اول پر لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کے خلاف باغیوں کی کامیاب کارروائیوں کو جَلّی حروف میں شائع کیا ہے۔ طرابلس میں باغی فوجیں پیش رفت کر رہی ہیں۔

اخبار’ وال اسٹریٹ جرنل‘ نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ معمر قذافی کے دِن اب گِنے جاچکے ہیں۔ لیکن، ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ وہ اقتدار کس طرح چھوڑیں گے۔

باغیوں کا یہ خیال ہے کہ طرابلس پر طاقت کے ذریعے قبضہ کرنا خاصا خونریز ثابت ہوسکتا ہے۔ اِس لیے، بہتر یہی ہوگا کہ یہ حکومت اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہو جائے۔

اخبار نے آگے چل کر لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہوگا کہ قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد طرابلس کا نظم و نسق سنبھالنا اور اُس کو چلانا۔ بن غازی میں قومی عبوری کونسل کے لیڈر خاصے پُر امید ہیں اور وہ سکیورٹی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے منصوبوں پر غور و فکر کررہے ہیں۔

اخبار’ لندن ٹائمز‘ نے اِس منصوبے کے کچھ پہلوٴں کی طرف نشاندہی کی ہے۔ فی الحال حالات باغیوں کے حق میں ہیں، لیبیا کے سابق وزیرِ اعظم عبد السلام جالود ملک سے فرار ہوکر اٹلی چلے گئے ہیں اور اِسی طرح، قذافی کے پرانے ساتھی وزیرِ داخلہ نصر المبارک عبد اللہ اور فوج کے کمانڈر مسعود عبد الحافظ بھاگ کر مصر چلے گئے ہیں۔

دوسری طرف، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اِن کامیابیوں کے پیچھے افرا تفری بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم، توقع یہی کی جارہی ہے کہ قذافی کے بعد کا دور موجودہ دور سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔

اگر باغی اپنے طے شدہ منصوبوں پر عمل کریں گے تو حکمرانی کا خلا پیدا نہیں ہوگا۔ اِسی طرح بین الاقوامی برادری کو عراق اور افغانستان کے تجربات کی روشنی میں عبوری حکومت کو مستحکم بنانے کے لیے ضروری مدد کرنی ہوگی۔

ایک اور امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایک ادارتی مضمون میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مضمون میں افغانستان کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار سیاسی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں اولاً امریکہ کو افغانستان میں اپنے مقاصد کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیئے اور سنہ 2014ء تک فوجی اور سیاسی حکمتِ عملی میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں امریکہ کی نئی ٹیم کی قیادت سفیر ریان کروکر اور جنرل جان ایلن کر رہے ہیں۔ اِن کو چاہیئے کہ ایسے منصوبے بنائے جائیں جِن کے تحت سیاسی، اقتصادی اور فوجی حکمتِ عملیاں ایک دوسرے سے مربوط اور ہم آہنگ ہوں۔

اِس کے ساتھ افغانستان کے اداروں اور جمہوری قوتوں کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اِ س میں میڈیا، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، آزاد الیکشن کمیشن اور یہاں تک کہ حزبِ اختلاف بھی شامل ہیں۔تیسرا اہم قدم یہ ہوگا کہ امریکہ افغانستان میں سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور چھوتھا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ افغانستان میں سیاسی سطح پر تصفیے کرائے جائیں۔

افغانستان میں دس سال کے قیام کے بعد اب امریکی افواج کے بتدریج انخلا کا فیصلہ صدر اوباما کر چکے ہیں۔آئندہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو یہ ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی اور اس کے لیے سیاسی اور اقتصادی استحکام شرطِ لازم ہے۔

اخبار’ لاس انجلیس ٹائمز‘ نے امیگریشن کے موضوع پر اداریہ لکھا ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ پچھلے ہفتے اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ تقریباً تین لاکھ غیر قانونی تارکینِ وطن کے معاملات کا جائزہ لیا جائے گا اور یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کِن غیر قانونی تارکینِ وطن کو واپس اُن کے ملکوں میں بھیجا جائےاور کن لوگوں کو قانونی طور پر امریکہ میں قیام کی اجازت دے دی جائے۔

اِس مسئلے کے بارے میں دونوں جانب موجود تشویش میں وزن ہے۔ بہر حال، اِس اعلان سے اس مسئلے کے حل کی طرف آغاز ضرور ہوا ہے۔

ایک طویل عرصے سے زیرِ التویٰ اِس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ سرحدی سکیورٹی معاملات بھی حکومت کے پیشِ نظر ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اوباما انتظامیہ اِن سے کس طرح عہدہ برا ہوتی ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG