رسائی کے لنکس

لیبیا کا مستقبل ڈانواڈول


لیبیا کا مستقبل ڈانواڈول
لیبیا کا مستقبل ڈانواڈول

مغربی اور عرب ملکوں کے اتحاد نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت لیبیا میں مداخلت کی ہے ۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ایک ایسی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے جس میں نہ تو لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کی جیت ہوگی اور نہ حکومت کے مخالف باغیوں کی ۔ اگر اس جھگڑے نے طول کھینچا تو ممکن ہے کہ مغربی ملکوں کا اتحاد کرنل قذافی کا تختہ الٹنے کے لیئے زیادہ جارحانہ لیکن سیاسی اعتبار سے کوئی مخدوش اقدام کر بیٹھے۔

اتوار کے روز فاکس نیوز ٹیلیویژن پر امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر مین، ایڈمرل مائیکل ملن نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرار داد میں خاص طور سے سویلین آبادی کی حفاظت کی بات کی گئی ہے۔ اس میں کرنل قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیئے نہیں کہا گیا ہے۔’’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں تمام تر توجہ بن غازی پر اور سویلین آبادی کی حفاظت پر مرکوز کی گئی ہے۔ اور ہم نے یہی کام شروع کیا ہوا ہے ۔اس مرحلے میں، مقصد یہ نہیں ہے کہ خود قذافی کے خلاف کارروائی کی جائے یا ان پر حملہ کیا جائے۔‘‘

لیکن بعض تجزیہ کار اس تشویش کااظہار کر رہے ہیں کہ اگر باغی فورسز کی صرف محدود پیمانے پر حمایت کی گئی، تو اس سے ایسے تعطل کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے جس میں کسی کو بھی فیصلہ کُن فتح حاصل نہیں ہو گی ۔ ڈیفینس انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق تجزیہ کار، جیفری وائٹ کہتے ہیں کہ نو فلائی زون قائم ہونے اور لیبیا کی بعض فوجی تنصیبات پر حملوں کے باوجود، یہ واضح نہیں ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔’’نو فلائی زون سے، اور اب تک کیئے جانے والے زمینی حملوں سے حکومت، اور حکومت کی فورسز کمزور تو ہوگئی ہیں لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہیں اور انھوں نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ وہ خود کو کسی حد تک بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھال سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگر حملوں میں اور زیادہ تیزی نہ آئی تو وہ موجودہ حالات کو برداشت کر لیں۔‘‘

بد ترین صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ ملک عملی طور پر دو ٹکڑوں میں بٹ جائے۔ طرابلس اور مغرب کے کچھ حصے کرنل قذافی کے کنٹرول میں رہیں، اور ملک کا بقیہ حصہ باغیوں کے کنٹرول میں رہے جن کی انتظامیہ بن غازی میں ہوگی۔

امریکی محکمۂ خارجہ کےانٹیلی جنس کے سابق تجزیہ کار وائن وائٹ کہتے ہیں کہ اگر اس قسم کا امکان پیدا ہوا، تو ہو سکتا ہے کہ اتحاد باغیوں کی مدد کے لیئے زیادہ سخت اقدام کرنے پر مجبور ہو جائے۔’’

لیبیا کے مغرب میں بھی، قذافی کی حالت ڈانوا ڈول ہے ۔ اور اگر ان کی حکومت بالکل الگ تھلگ ہو جاتی ہے، اور اگر بین الاقوامی برادری متحدہ حزب اختلاف کو مدد فراہم کرتی ہے تو پھر ان کی اپنی حکومت میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اقوام متحدہ میں جس کسی نے بھی قذافی کے خلاف کارروائی کی حمایت کی تھی، وہ کسی ایسے اقدام کی حمایت کرے گا جس سے لیبیا کے ٹکڑے ہو جائیں۔ وہ سب قذافی سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔‘‘

لیکن جیسا کہ ایڈمرل ملن نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی قرار داد میں حکومت میں تبدیلی کے لیئے نہیں کہا گیا ہے اور اس میں خاص طور سے لیبیا میں غیر ملکی قابض فورس کی ممانعت کی گئی ہے ۔ ڈیفینس انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق تجزیہ کار جیفری وائٹ کہتے ہیں کہ اتحادی ممالک بعض دوسرے اقدامات کر سکتے ہیں جیسے مواصلاتی لائنوں پر حملے کرنا اور باغیوں کو ہتھیار دینا۔ لیکن وہ کہتےہیں کہ بعض ملکوں کی نظر میں اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ہم حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔’’لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام کیا جائے، اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ توازنِ طاقت باغیوں کے حق میں کرنے، اور حکومت تبدیل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘

فوجی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ باغیوں کے پاس ہتھیار اور دوسرا سازو سامان بہت کم ہے لیکن لیبیا کی فوج بھی کوئی خاص لڑاکا فورس نہیں۔ وائن وائٹ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی بڑے ملک کے مقابلے میں لیبیا کی فوج کی حالت سب سے ابتر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG