رسائی کے لنکس

قذافی حکومت، مغربی خفیہ ایجنسیوں کے مابین قریبی تعاون کا انکشاف


قذافی حکومت، مغربی خفیہ ایجنسیوں کے مابین قریبی تعاون کا انکشاف
قذافی حکومت، مغربی خفیہ ایجنسیوں کے مابین قریبی تعاون کا انکشاف

لیبیا میں منظرِ عام پر آنے والے سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں اور لیبیا کی قذافی حکومت کے مابین نہ صرف قریبی تعلقات قائم تھے بلکہ دہشت گردی کے مبینہ ملزموں سے تفتیش کے لیے لیبیا اور مغربی طاقتوں کے مابین تعاون بھی کیا جاتا تھا۔

مذکورہ دستاویزات جمعہ کو طرابلس میں واقع قذافی انتظامیہ کے ایک دفتر کا دورہ کرنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' کے محققین کی ٹیم کے ہاتھ لگی تھیں۔ مذکورہ دفتر مبینہ طور پر لیبیا کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور معمر قذافی کے قریبی ساتھی موسیٰ کوسیٰ کے زیرِاستعمال تھا۔

برآمد ہونے والی دستاویزات کی سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

دستاویزات 2002ء اور اس کے بعد لیبیا کی خفیہ ایجنسیوں، امریکی 'سی آئی اے' اور برطانوی 'ایم آئی – 6' کے درمیان ہونے والی مراسلت پر مشتمل ہیں۔ دستاویزات انٹیلی جنس کے تبادلے، ملزمان سے تفتیش کی پیشکشوں، ان کے اوقات اور طریقہ کار کی تفصیلات، مبینہ دہشت گردوں کی فہرستوں اور ان سے کیے جانے والے مجوزہ سوالات پر مشتمل ہیں۔

دستاویزات میں معمر قذافی کی ایک تقریر کا مسودہ بھی شامل ہے جسے بظاہر 'سی آئی اے' نے تحریر کیا ہے۔ تقریر میں قذافی نے مشرقِ وسطیٰ کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

افشاء ہونے والی دستاویزات میں سی آئی اے کے اس دور کے نائب سربراہ اسٹیفن کیپز کا موسیٰ کوسیٰ کے نام ایک خط بھی شامل ہے جس میں 2004ء میں لیبیا میں 'سی آئی اے' کی "مستقل موجودگی " کے حوالےسےپیش رفت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ خط خاصے بے تکلف انداز میں لکھا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں افسران کے درمیان قریبی تعلق موجود تھا۔

ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' کو بتایا ہے کہ مذکورہ مراسلت جس دور سے تعلق رکھتی ہے اس وقت لیبیا اور مغربی ممالک کے تعلقات بہتری کی جانب گامزن تھے جن کے نتیجے میں 2004ء تک لیبیا کی حکومت نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ترک کرنے اور امریکیوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو روکنے کا اعلان کردیا تھا۔

جب مذکورہ معاملہ پر تبصرہ کے لیے 'سی آئی اے' کی ترجمان جینفر ینگ بلڈ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سی آئی اے امریکہ کو محفوظ بنانے کے لیے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور "اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں"۔

'نیو یارک ٹائمز' کی جانب سے رابطہ کرنے پر برطانوی دفترِ خارجہ نے یہ کہہ کر ردِ عمل ظاہر کرنے سے انکار کردیا کہ اس کی جانب سے انٹیلی جنس سے متعلق معاملات پر رائے زنی نہیں کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG