رسائی کے لنکس

افریقہ میں شیروں کا غیر قانونی شکار


شیروں کی ہڈیوں کےحصول کے لیے ان کا غیر قانونی شکار افریقی ممالک کی حکومتوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ذمہ داران کے لیے عرصہٴ دراز سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے

افریقی جنگلات کا نام آتے ہی ذہن میں جنگل کے بادشاہ شیر کا تصور ابھرتا ہے۔ لیکن شیروں کی ہڈیوں کےحصول کے لیے ان کا غیر قانونی شکار افریقی ممالک کی حکومتوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ذمہ داران کے لیے عرصہ دراز سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔

حال ہی میں ایک غیر سرکاری تنظیم 'آواز' نے شیروں کی ہڈیوں کی تجارت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے جنوبی افریقہ میں ایک اشتہاری مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے اشتہارات آپ کو جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، 'ساؤتھ افریقن ایئر ویز' کے جریدے اور 'گوگل' سمیت کئی جگہوں پر نظر آئیں گے۔ ان اشتہاروں کا مقصد شیروں کے طے شدہ شکار کے خلاف آگہی پھیلانا ہے۔

اس طے شدہ شکار کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ شیروں کو مصنوعی طور پر تیار کی گئی شکار گاہوں میں پالا پوسا جاتا ہے تاکہ شائقین وہاں ان کا شکار کرسکیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس شکار کے لیے شکاری 20 ہزار ڈالرز تک کی رقم ادا کرتے ہیں۔

اس مصنوعی شکار کے علاوہ بھی افریقی جنگلات میں شیروں کی ہڈیاں حاصل کرنے کے لیے ان کا غیر قانونی شکار کیا جارہا ہے۔ ان ہڈیوں کو بعد ازاں جنسی قوت بڑھانے والی ادویات اور دیگر روایتی طریقہ علاج میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس شکار کے خلاف رائے عامہ اجاگر کرنے والی 'آواز' نامی یہ تنظیم خود کو ایک ایسی عالمی تحریک بتاتی ہے جس کا وجود 'ویب سائٹ' کا مرہونِ منت ہے۔

جیمی چوائے 'آواز' کی اس مہم کے نگران ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے شیرمعدوم ہوتے جارہے ہیں۔

جیمی کہتے ہیں کہ شیروں کے اعضاء کی غیر قانونی فروخت بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے بقول ماہرین کے اندازے کے مطابق اس وقت پورے براعظم افریقہ میں جنگلی شیروں کی کل تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ ہے اور ان کے غیر قانونی شکار کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر جنوبی افریقہ کے صدر زوما یہ غیر قانونی تجارت روکنے کے لیے فوری اقدامات نہیں کرتے تو اس سے نہ صرف جنوبی افریقہ کی سیاحت کی صنعت متاثر ہوگی بلکہ اس کی جنگلی حیات کی جنت ہونے کی شہرت کو بھی نقصان پہنچے گا۔

واضح رہے کہ ہڈیوں اور کھال کے حصول کے لیے کیے جانے والے غیر قانونی شکار کے باعث افریقی چیتے اور گینڈے کی نسل پہلے ہی معدومیت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور جیمی چوائے کے بقول اگر مناسب اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلا نمبر شیروں کا ہوگا۔

شیر کی ہڈیوں کو اس وقت چیتے کی ہڈیوں کے متبادل کے طور پر مختلف اشیا خصوصا 'ٹائیگر بون' نامی شراب کی تیاری میں استعمال کیا جارہا ہے جو ویتنام اور چین کے متمول طبقوں میں بہت مقبول ہے۔

ان جانوروں کی ہڈیوں کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ جوڑوں کے درد میں بہت مفید ہیں جب کہ کئی ضعیف الاعتقادلوگ انہیں قوتِ باہ میں اضافے کا ذریعہ بھی گردانتے ہیں۔

انہی اعتقادات کے باعث ان ہڈیوں کی طلب بہت زیادہ ہے جس کے پیشِ نظر جنوبی افریقہ کی حکومت ان ہڈیوں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دینے سے انکاری ہے۔

چند ماہ قبل جنوبی افریقہ کی وزیرِ ماحولیات ایڈنا مولیوا نے بھی شیر کی ہڈیوں کی تجارت کو ممنوع قرار دینے کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ اس تجارت سے جنگلی شیروں کی نسل کو کوئی خطرہ ہے۔

لیکن جیمی چوائے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوششوں کو دنیا بھر کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہورہی ہے۔
XS
SM
MD
LG