رسائی کے لنکس

میں پاگل نہیں ہوں!


’کاروان ِ حیات‘ نامی ادارے کے اس اشتہار پہ لکھا تھا کہ ہر چار پاکستانیوں میں سے ایک کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔

کراچی کے ایک علاقے میں بم دھماکہ ہونے کی وجہ سے ہم دوسرے راستے سے گھر جا رہے تھے اور ساتھ ہی ریڈیو پر رمضان کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کی خبر کے منتظر تھے کہ شہر میں اس دن ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد یوں پیش کی جانے لگی جیسے کسی میچ کا اسکور ہو اور میں نے ریڈیو بند کر دیا۔

سامنے سے ایک بڑی سی گاڑی اس دھڑلے سے غلط راستے سے آ رہی تھی کہ ایک لمحے کو میں نے سوچا کہ شاید میں غلط سمت میں جا رہا ہوں لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اس گاڑی کے پیچھے سوار محافظوں نے مجھے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ دیا۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ’ساڈا حق ایہتھے رکھ‘ اور وہ گاڑی آگے بڑھ گئی۔ اور اس گاڑی کے پیچھے پیچھے کئی اور گاڑیاں بھی میرا راستہ کاٹ کر گزر گئیں۔ گاڑیوں کی اس قطار سے میں نے اپنا حق بھیک کی طرح مانگا اور ٹریفک سگنل پر پہنچا۔

میری نظر سڑک کنارے لگے ایک فلاحی ادارے کے بلبورڈ اشتہار پہ پڑی۔ پہلے تو مجھے اشتہار کے متن پر یقین نہ آیا لیکن پھر سارا دن جو لوگوں نے میرے ساتھ کیا اور جو میں نے ان کے ساتھ وہ میری نظروں کے سامنے کسی فلم کے ٹریلر کی طرح چلنا شروع ہو گیا اور مجھے اس اشتہار پہ یقین سا آنے لگا۔

’کاروان ِ حیات‘ نامی ادارے کے اس اشتہار پہ لکھا تھا کہ ہر چار پاکستانیوں میں سے ایک کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ذہنی صحت کے اس فلاحی ادارے کاروان ِحیات کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان کاظم نے بتا یا کہ ویسے تو مشرقی کلچر کا خاندانی ڈھانچہ آج بھی لوگوں کو سہارا دیتا ہے اور اگر وہ کسی ذہنی مشکل میں ہوں تو لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت ہوتا ہے، لیکن مغرب کی طرح آج پاکستان میں بھی حالات بدل رہے ہیں اور اس ہی لئے آج ملک میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ لوگ ذہنی دباو اور امراض کا شکار ہیں۔

ڈاکٹر سلمان کاظم نے کہا کہ، ’زندگی میں مصروفیات بڑھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے معاشی حالات، مستقل بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی، امن و امان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال سے مایوسی، اور بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا خوف بھی لوگو ں میں ذہنی امراض کے بڑھنے کے اہم اسباب ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ، ’ہمارے ہاں لوگ ذہنی امراض کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتے تھے کہ کہیں لوگ انھیں پاگل نہ سمجھیں، لیکن اب لوگوں میں آگہی بڑھ رہی ہے اور اب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ذہنی امراض کا بھی کسی بھی اور مرض کی طرح علاج ہونا چاہئے۔ کبھی کبھار انسان اپنی ذہنی مشکلات کا خود ہی حل تلاش کر لیتا ہے، کبھی دوستوں اور رشتہ داروں کی مدد سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور کبھی بات آگے بڑھ جاتی ہے اور انسان کو ایک ماہر ِنفسیات کی مدد لینا لازم ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر تب کہ جب انسان ہر وقت اداس رہتا ہو، اس کی بھوک اور نیند میں بہت تبدیلی آرہی ہو، وہ خود کو بہت ہی اہم یا بے کار سمجھنا شروع کر دے یا اسے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہوں یا ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہوں جو دوسروں کو سنائی یا دکھائی نہ دیتی ہوں‘۔

یہ ساری باتیں جاننے کے بعد ہمارے سامنے دو راستے ہیں یا تو ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو گنتے رہیں کہ کہیں ہم تو وہ چوتھے پاکستانی نہیں جو کسی ذہنی بیماری یا دباؤ کا شکار ہے۔ پھر یہ سوچ کر کونے میں بیٹھ جائیں کہ کہیں لوگ ہمیں پاگل نہ سمجھیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر بشمول ہمارے کسی کو بھی کوئی ذہنی مشکل ہو تو ہم دوسری بیماریوں کی طرح ذہنی امراض کو بھی قابل ِعلاج سمجھ کر نفسیات کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
XS
SM
MD
LG