رسائی کے لنکس

ملالہ یوسفزئی نے اپنی سالگرہ پناہ گزینوں کے ساتھ منائی


ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ وہ اپنی ہر سالگرہ پر ایک ایسے علاقے کا انتخاب کرتی ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو نظرانداز کیا جارہا ہے اور عالمی برداری کی توجہ کی ضرورت ہے

دنیا کی کم عمر نوبل انعام یافتہ دختر پاکستان ملالہ یوسفزئی نے منگل کو کینیا میں پناہ گزینوں کے لیے دنیا کے سب سے بڑے کیمپ کا دورہ کیا، اور اپنی انیسویں سالگرہ کا دن کینیا میں مہاجرین کے ساتھ گذارا۔

ملالہ کا اپنی زندگی کے اس اہم دن کو پناہ گزینوں کے درمیان گزارنے کا مقصد عالمی پناہ گزینوں کے بحران پر توجہ مبذول کرنا تھی اور خاص طور پر ایک چوتھائی صدی کے بعد داداب کیمپ کو بند کرنے کے کینیا کی منصوبہ بندی پر ردعمل ظاہر کرنا تھا۔

ملالہ کی طرف سے کینیا کی حکومت کے اس اعلان پر تشویش کا اظہار کیا گیا جس کےمطابق حکومت کینیا اس سال کے آخر تک داداب کیمپ کو بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کےحقوق کی علمبردار ملالہ یوسفزئی مہاجرین کی زبردستی بے دخلی کے مسئلہ پر عالمی برداری کی توجہ مبذول کراتے ہوئےکہا کہ ’'یہ ایک گمشدہ نسل تیار کرسکتا ہے'‘۔

ملالہ یوسفزئی نے کہا وہ اپنی ہر سالگرہ پر ایک ایسے علاقے کا انتخاب کرتی ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور عالمی برداری کی توجہ کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ میں صومالیہ کی ان بہنوں کی بات کرنے کے لیے یہاں ہوں جنھیں کبھی سنا نہیں گیا اور جو ہر روز تعلیم کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

ملالہ کے ترجمان ٹیلر روئل نے کہا کہ گذشتہ سال کے بعد سے ملالہ داداب کیمپ میں لڑکیوں کے ایک گروپ کے ساتھ اسکائپ کے ذریعے رابطے میں رہی ہیں اور ان سے اور دوسروں کے ساتھ جلد از جلد ملاقات کی راہ دیکھ رہی تھیں۔

ملالہ یوسفزئی نے خبررساں ادارے، ایسوسی ایٹیڈ پریس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ صومالیہ کینیا کا ہمسایہ ہے جو انتہا پسندوں کےحملوں کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ لہذا،300,000 لاکھ سے زائد صومالی پناہ گزینوں میں سے کسی کی بھی صومالیہ واپسی رضا کارانہ ہونی چاہیئے، انھیں منتقل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیئے۔

ملالہ نے پرعزم لہجے میں کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کیمپ جلد بند ہورہا ہے اور میں اس بات کا یقین کرنا چاہتی ہوں کہ پناہ گزین لڑکیاں کی نسل گمشدہ نہیں ہونی چاہیئے اور ان کے پاس تعلیم جاری رکھنے کے لیے متبادل سہولیات موجود ہونی چاہیئے۔

ملالہ نے خبردار کیا کہ اگر کیمپ بند کردیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو صومالیہ منتقل ہونا پڑتا ہے جہاں لڑکیوں کے چند اسکول موجود ہیں تو وہ تعلیم سے محروم ہو جائیں گی۔ انھوں نے داداب کیمپ کے حوالے سے کہا کہ یہاں ان لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔

ملالہ نے کینیا کے صدر اہورو کینیاٹا پر زور دیا کہ وہ کیمپ کی بندش پر فیصلہ لینے میں کچھ وقت لیں اور لڑکیوں کے لیے تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت پر غور کریں۔

کینیا کے صدر اہورو کینیاٹا نے مئی میں 25 سال بعد کیمپ بند کرنے کے اعلان میں کیا تھا اور کہا تھا کہ کہ صومالی مہاجرین کی وطن واپسی رضا کارانہ ہوگی اور انسانی انداز میں ہوگی۔

داداب کے مہاجرین میں سے بہت سوں نے اپنی زیادہ یا پوری زندگی کیمپ میں گزاری ہے اس وسیع و عریض کیمپ میں مہاجرین کے قائم گھروں کے علاوہ نئے پناہ گزینوں کی جھونپڑیاں ہیں، جنھیں کانٹے دار شاخوں اور دیگر مواد سے تعمیر کی گیا ہے۔

امکان ہے کہ مشرقی کینیا میں داداب کیمپ جو صومالیہ ک سرحد کے قریب واقع ہے اس سال بند کردیا جائے گا جس سے پناہ گزینوں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

کینیا کی حکومت نے اس کیمپ کو سلامتی ذمہ داری بتایا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس کیمپ میں صومالی انتہا پسند گروپ الشباب کےحملوں کی منصوبہ بندی اور سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG