رسائی کے لنکس

ملائشیا میں سیکیورٹی کے غیر مقبول قانون کا خاتمہ


ملائشیا میں سیکیورٹی کے غیر مقبول قانون کا خاتمہ
ملائشیا میں سیکیورٹی کے غیر مقبول قانون کا خاتمہ

ملائشیا کے وزیرِاعظم نجیب رزاق کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت گزشتہ نصف صدی سے چلے آرہے اس قانون کو ختم کر رہی ہے جس کے تحت سکیورٹی اداروں کو ملزمان کو بغیر مقدمہ چلائے قید رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔

وزیرِاعظم نے 'انٹرنل سکیورٹی ایکٹ' نامی اس قانون کے خاتمے کا اعلان جمعرات کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پرانے قانون کی جگہ دو نئے قوانین متعارف کرائے جارہے ہیں جن کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کیے بغیر دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ اب تک ہزاروں ملائیشیائی شہری برطانوی نوآبادیاتی دور میں منظور کیے گئے اس قانون کا نشانہ بن چکے ہیں۔

اپنے خطاب میں وزیرِاعظم نے اس قانون کے خاتمے کا بھی اعلان کیا جس کے تحت ذرائع ابلاغ کے اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ہر سال اپنے لائسنس کی تجدید کرائیں۔ ناقدین کا موقف ہے کہ مذکورہ قانون کو مخالفانہ آواز یں دبانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

ملائشیا کے وزیرِاعظم نے اپنے خطاب میں وعدہ کیا کہ ان کی حکومت لوگوں کے جمع ہونے پر قدغن عائد کرنے والے ایک قانون کا بھی جائزہ لے گی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ شہریوں کو ان کے سیاسی رجحانات کے باعث حراست میں لینے کا سلسلہ بھی بند کردیا جائے گا۔

'یونیورسٹی آف سائوتھ ویلز' کے سابق پروفیسر اور ملائشیا کے معاشرے اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کلائیو کیسلر نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ وزیراعظم نجیب رزاق حالیہ اقدامات کے ذریعے آئندہ انتخابات سے قبل حکمران اتحاد 'نیشنل فرنٹ' کا تاثر بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملائشیا میں آئندہ عام انتخابات طے شدہ مدت سے ایک برس قبل 2012ء میں منعقد کیے جائیں گے۔

پروفیسر کیسلر کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم کے حالیہ دعووں کو 'انٹرنل سیکیورٹی ایکٹ' کی جگہ لینے والے قوانین اور حکومت کی جانب سے ملک میں انٹر نیٹ کو کنٹرول کرنے کی ممکنہ کوششوں کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے ملائشیا کے سیاسی ماحول کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

حکمران اتحاد 'نیشنل فرنٹ' کو 2008ء سے سیاسی مشکلات کا سامنا ہے جب اسے سابق نائب وزیرِاعظم انور ابراہیم کی سربراہی میں قائم حزبِ مخالف کے اتحاد کے ہاتھوں پارلیمان میں اپنی فیصلہ کن اکثریت سے محروم ہونا پڑا تھا۔

حکمران جماعت کو اس وقت مزید عوامی غم وغصہ کا سامنا کرنا پڑا تھا جب پولیس نے رواں برس جولائی میں انتخابی اصلاحات کے حق میں ہونے والی ایک بڑی عوامی ریلی کو طاقت کے زور پر منتشر کردیا تھا۔

پروفیسر کیسلر کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نجیب کو اپنے حالیہ فیصلوں کے لیے حکمران اتحاد کے اندر سے حمایت کے حصول کا چیلنج بھی درپیش ہوگا۔

XS
SM
MD
LG