رسائی کے لنکس

مالی میں پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

شمالی مالی میں فرانس کی قیادت میں کی جانے والی فوجی کارروائی کی کامیابی کے باوجود امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ مالی میں 450,000 پناہ گزینوں اور ملک کے اندر بے دخل ہو جانے والے لوگوں کی حالت بہتر نہیں بلکہ روز بروز زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔

شمالی مالی میں فرانس کی قیادت میں کی جانے والی فوجی کارروائی کی کامیابی کے باوجود امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ مالی میں 450,000 پناہ گزینوں اور ملک کے اندر بے دخل ہو جانے والے لوگوں کی حالت بہتر نہیں بلکہ روز بروز زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے مالی کے بے گھر ہوجانے والے لوگوں کے لیے جو گزشتہ 16 مہینوں میں شمالی علاقے سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں، امداد میں اضافے کے لیے کہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ مستقبلِ قریب میں اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکیں گے۔

ویلیری مبحو نانا باماکو میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے ترجمان ہیں۔

وہ کہتےہیں ‘‘شمالی مالی میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت افسوسناک ہے۔ ہم نے گزشتہ ہفتوں میں، بعض بڑے شہروں میں، جیسے گوا میں سیکیورٹی کے مسائل کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے حالات میں گھروں سے بے دخل ہو جانے والے لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے سے ڈرتے ہیں ۔ وہ یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ ان کے گھر واپس لوٹنے سے پہلے، سیکورٹی کی حالت بہتر ہو جائے گی۔’’

شمالی مالی میں لڑائی جاری ہے اگرچہ فرانسیسی اور مالی کی فوجوں نے پسندوں کو ان قصبوں سے نکال دیا ہے جو کبھی ان کے کنٹرول میں تھے۔

فرانس ور مالی کے فوجیوں نے 27 جنوری کو گوا کے قصبے کو اسلامی عسکریت پسندوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک جہادی جنگجوؤں اور خود کش بمباروں نے بہت سے خود کش حملے کیے ہیں اور چھاپے مارے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی نے کہا ہے کہ مالی کے ایک لاکھ اسّی ہزار باشندے فرار ہو کر موریطانیہ، نیجر اور برکینا فاسو پہنچ گئے ہیں اور ان میں سے بہت سے عارضی پناہ گزیں کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

تا ہم شمال سے بھاگنے والے دو لاکھ اسّی ہزار لوگوں کی بہت بڑی اکثریت مالی میں ہی جنوب کے علاقے میں پہنچی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور باقی کھلے میدانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

کارل نوایزی موریطانیہ میں ‘بارڈز ودآؤٹ ڈاکٹرز’ کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں مبیرا کے پناہ گزیں کیمپ میں مالی کےجو ستّر ہزار پناہ گزیں موجود ہیں ان میں سے بہت سوں کو کافی غذا، پینے کا پانی اور سر چھپانے کی جگہ میسر نہیں ہے۔

‘‘جنوری میں جب فوجی کارروائیاں شروع ہوئیں، تو اس کیمپ میں مالی سے 15,000 پناہ گزیں آ گئے۔ اب اس کیمپ میں حالات خاصے خراب ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ لوگوں کو وہ تمام چیزیں مل جائیں جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں، کوششیں کی گئی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز کا دارومدار انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد پر ہے۔’’

انھوں نے کہا کہ آج کل مبیرا کیمپ میں لوگ بڑی مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کیمپ کے بعض حصوں میں ہر بارہ ہزار افراد کے لیے صرف چار لیٹرین ہیں۔ بہت سے گھرانے عارضی خیموں میں زندگی گذار رہے ہیں۔

نوایزی نے کہا کہ جنوری سے اب تک ایسے بچوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے جنہیں غذائیت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ یہ صورتِ حال اس وقت ہے جب کیمپ میں نئے آنے والے بچوں میں سے 85 فیصد بچوں کی صحت اچھی تھی۔

اب جب کہ بے گھر ہونے والے لوگ طویل عرصے تک پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے کی تیاری کر رہے ہیں امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انسانی مصائب کے اس بحران کو اور زیادہ خراب شکل اختیار کرنے سے بچانے کے لیے انہیں امداد میں اضافہ کرنا ہو گا ۔
XS
SM
MD
LG