رسائی کے لنکس

مالی: امداد فراہم کرنے والے اداروں کو درپیش خطرات


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

امداد فراہم کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ مالی میں اگر 2013ء میں لڑائی پھر شروع ہو گئی تو بے گھر افراد اور پناہ گزینوں کی تعداد میں لاکھوں افراد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

انسانی بھلائی کے لیے کام کرنے والی ایجنسیوں نے ان بہت سے خطرات کے بارے میں انتباہ کیا ہے جو القاعدہ سے منسلک انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں مالی کی سویلین آبادی کے لیے پیدا ہو سکتے ہیں۔

مالی کا شمالی حصہ گذشتہ اپریل سے ان انتہا پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے حال ہی میں اگلے سال مالی میں افریقی ملکوں کے فوجیوں کی بتدریج تعیناتی کے حق میں متفقہ ووٹ دیا ہے۔

شمالی مالی سے اس سال کے شروع سے اب تک چار لاکھ بارہ ہزار لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جنوری میں Tuareg علیحدگی پسندوں کی بغاوت کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ، اس سال اپریل سے القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے قبضے کی شکل اختیار کر گئی ۔

امداد فراہم کرنے والی ایجنسیوں نے کہا ہے کہ ، اگر 2013ء میں لڑائی پھر شروع ہو گئی تو بے گھر افراد اور پناہ گزینوں کی تعداد میں لاکھوں افراد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

جمعرات کے روز جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے مالی میں علاقائی فوج کی تعیناتی کی منظوری دی، تو مالی میں انسانی بھلائی کا کام کرنے والی دس غیر سرکاری تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ فوجی کارروائی کب شروع ہوگی، اگرچہ عہدے داروں نے کہا ہے کہ یہ کام ستمبر 2013ء سے پہلے شروع نہیں کیا جائے گا۔

امدادی کام کرنے والے دس گروپوں نے کہا ہے کہ فوجی کارروائی کے انسانی نقطۂ نظر سے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے اور سویلین آبادی کی حفاظت کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے۔

مالی کے لیے ورلڈ ویژن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جسٹن ڈگلس نے کہا کہ 2012ء کا بحران ایسے وقت آیا تھا جب ساحل کے پورے علاقے کو پہلے ہی شدید خشک سالی اور غذائی اشیاء کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مالی میں پہلے ہی چالیس لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس کافی غذا نہیں ہے۔ اگر فوجی کارروائی کی جاتی ہے، تو پھر جو لوگ یہ کارروائی کریں گے انہیں چاہیئے کہ وہ ان لوگوں کی ضروریات کو مدِ نظر رکھیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، خاص طور سے عورتیں اور بچے، کیوں کہ ان لوگوں پر پہلے ہی دباؤ بہت زیادہ ہے، اور اگر ان لوگوں کا خیال کیے بغیر فوجی کارروائی کی گئی، تو حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔

ڈگلس نے کہا کہ فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو چاہیئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں امداد دینے والی ایجنسیاں جنگ سے فرار ہونے والے سویلین باشندوں تک پہنچ سکیں۔

2013ء میں سب کچھ ہونا ممکن ہے۔ دہشت گردوں کے حملے، سیاسی خلفشار میں اضافہ، یا اس جھگڑے کا جنوبی مالی میں، یا ہمسایہ ملکوں میں پھیل جانا، غرض سبھی کچھ ممکن ہے۔ ان تمام چیزوں کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد متاثر ہو سکتی ہے۔

لڑائی سے کھیت اور زمینیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو سکتا ہے۔ لوگ بے گھر ہوتے ہیں تو ہیضہ پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اور لڑکیوں اور عورتوں کے لیے جنسی تشدد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

امدادی ایجنسیوں نے کہا ہے کہ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ شمال میں کم ا ز کم کچھ مسلح گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی جائے تا کہ اس بحران کا کوئی پائیدار اور پُر امن حل مل جائے۔

انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ بین الاقوامی حمایت سے کیے جانے والے کسی بھی حملے میں جو بھی فوجی حصہ لیں وہ انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کے بارے میں بین الاقوامی قانون میں پوری طرح تربیت یافتہ ہوں تا کہ سویلین آبادی اور ان کی املاک کو نقصان نہ پہنچے۔
XS
SM
MD
LG