رسائی کے لنکس

جماعت الدعوۃ کی ’ثالثی عدالت‘ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست


درخواست گزار خالید سعید نے کہا کہ ناصرف اسے عدالت میں حاضر ہونے کے لیے تنظیم کے لیٹر پیڈ پر سمن موصول ہوا بلکہ مبینہ طور پر اسے عدالت کے قاضی کی طرف سے دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز بھی موصول ہوئیں۔

لاہور کے ایک رہائشی نے جماعت الدعوۃ کی ثالثی شرعی عدالت کی طرف سے طلب کیے جانے پر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔

لاہور میں پراپرٹی اور تعمیرات کے شعبے سے منسلک خالد سعید نامی شخص کو ایک مالی تنازعے کے سلسلے میں جماعت الدعوۃ کی عدالت کی طرف سے ثالثی عدالت میں حاضر ہونے کا سمن موصول ہوا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل مقبول حسین شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ درخواست میں مؤقف اخیتار کیا گیا ہے کہ جماعت الدعوۃ نے ایک متوازی نظام انصاف قائم کر کے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، لہٰذا اس (عدالت کو) غیر قانونی قرار دے کر بند کروایا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے موکل کا محمد اعظم نامی ایک شخص سے لین دین کا تنازعہ چل رہا تھا۔ وکیل کے بقول محمد اعظم کی طرف سے پولیس میں پرچہ درج کرانے کے بعد اُن کے موکل کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد اُنھیں ضمانت پر رہائی مل گئی۔

’’قانونی عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں۔ اب یہ متوازی نظام کہاں سے آ گیا؟ ۔۔۔ اسی لیے ہم نے اس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔‘‘

مقبول حسین شیخ کے مطابق درخواست میں وفاقی سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری قانون، پنجاب کے چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور کے علاوہ محمد اعظم اور جماعت الدعوۃ کی عدالت کے قاضی حافظ ادریس کو فریق بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل مختلف اخباروں میں شائع ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ جماعت الدعوۃ نے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے چوبرجی میں دارالقضا الشریعہ نامی ایک عدالت قائم کر رکھی ہے جو متعلقہ افراد کو سمن بھیج کر طلب کرتی ہے جن میں پیش نہ ہونے کی صورت میں شرعی قوانین کے تحت تادیبی کارروائی کے لیے خبردار کیا جاتا ہے۔

تاہم جماعت الدعوۃ کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ تنظیم کی طرف سے قائم کی گئی ’’ثالثی کونسل کا مقصد علمائے کرام کی رہنمائی میں فریقین کی رضامندی سے کتاب و سنت کی روشنی میں ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے۔‘‘

مقبول حسین شیخ نے کہا کہ ان کے مؤکل خالد حسین کو جماعت الدعوۃ کی عدالت میں حاضر ہونے کے لیے تنظیم کے لیٹر پیڈ پر سمن موصول ہوا جو انہوں نے ہائی کورٹ میں پیش کر دیا ہے۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے فریقین کو 26 اپریل کو عدالت میں اپنا جواب داخل کرانے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اس معاملے پر سامنے آنے والی خبروں کے بعد پنجاب حکومت میں شامل عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آئے تھے کہ کسی کو بھی متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG