رسائی کے لنکس

ویتنام کے جنگلوں میں ہر طرف موت کا رقص دیکھا: بارنز


اس دن امریکی ان لوگوں کی یاد مناتے ہیں جنھوں نے اپنے ملک کی جنگوں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ اس دن جھنڈے لہرائے جاتے ہیں ، پیریڈیں اور حب الوطنی کی تقریبات ہوتی ہیں، لیکن یہ وہ دن بھی ہے جب لوگ اپنے ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں جو میدان جنگ میں یا فوجی خدمات کے دوران مارے گئے۔ وائس آف امریکہ نے ایڈم فلپس نے بعض سابق فوجیوں سے ان کے ذاتی تجربات کے بارے میں بات کی ۔ ان کی گفتگو پر مبنی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

مین ہاٹن میں سابق فوجیوں کے ہسپتال کے سامنے، یہ دوپہر کا وقت ہے۔ ہسپتال کے عملے کے لوگ اور مریضوں کے اہلِ خاندان یہاں جمع ہیں جو مریضوں سے اور بل جوزف جیسے سابق فوجیوں سے ملنے یہاں آئے ہیں۔ بل جوزف اپنے سر پر غیر ملکی جنگوں کے سپاہیوں کے نشان والی ٹوپی کو ٹھیک کرتے ہیں اور تین عشرے قبل، ویتنام کی جنگ میں امریکی بحریہ میں اپنے تجربات بتاتے ہیں:
میں سب سے زیادہ کمانڈر بِل سیِفرز کو یاد کرتا ہوں۔ ہم بہت پکے دوست بن گئے تھے ۔ وہ زبردست پائلٹ تھے ۔ وہ بڑے رحمدل انسان تھے۔ جب مشہور فلم ایکٹریس مس جین فونڈا جو جنگ کے سخت مخالف تھیں، ہنوئی گئیں، اس کے فوراً بعد، کمانڈر سیفرز کا جہاز مار گرایا گیا۔ وہ پھر بھی اپنے جہاز کو طیارہ بردار جہاز تک لانے میں کامیاب ہو گئے اور تقریباً بچ گئے تھے۔ لیکن ان کا جہاز سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ میرے لیئے یہ عظیم سانحہ تھا۔
جب بِل جوزف اپنی فوجی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد واپس آئے اور ان کا جہاز جنوب مشرقی ایشیا سے سان فرانسسکو پہنچا، تو لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ان کے استقبال کے لیئے موجود تھا۔ بِل جوزف بتاتے ہیں:
کمانڈر سیفرزمو کی بیوی اور ان کا چودہ سالہ بیٹا میرا انتظار کر رہے تھے ۔ انھوں نے مجھ سے کہا: لیکن بل، بل ، تم نے تو مجھ سے کہا تھا کہ تم ڈیڈی کو اپنے ساتھ واپس لے کر آؤ گے اور ان کی خدمت کروگے۔ یہ الفاظ سُن کر میرا دل بھر آیا۔
ایک اور سابق فوجی مارکو ٹورَس ہیں۔ انہیں اپنے وہ تین ساتھی یاد آ رہے ہیں جو گذشتہ سال افغانستان میں کابل کے نزدیک گھات لگا کر کیے جانے والے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے ایک، ان کے لیے بڑے بھائی جیسا تھا، ٹورَس بتاتے ہیں:
سارجنٹ میک کے کو ہمیشہ دوسروں کی باتیں سننا اچھا لگتا تھا ۔ وہ میری باتیں بڑے شوق سے سنتے تھے ۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے اور تجربہ کار تھے ۔ جب مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا، میں اپنا دکھڑا انہیں کو سناتا ۔ انھوں نے مجھے اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا۔ ان کے بیوی بچے تھے۔ وہ سائیکل کی ریس کے شوقین تھے ۔ ان کا اپنا کار گیراج کا بزنس تھا اور وہ اپنے گھرانے پر جان چھڑکتے تھے۔ غرض یہ کہ انھوں نے بڑی بھر پور زندگی گذاری۔
ٹورَس نے اپنی سکواڈ کے ایک اور رکن کو بھی یاد کیا جو افغانستان میں اسی حملے میں ہلاک ہوئے تھے ۔ ان کا نام پالمیتِیر تھا۔ انھوں نے بتایا:
وہ بڑے خوش باش انسان تھے ۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ سب کا حوصلہ بڑھاتے اور لوگوں کو لطیفے سناتے اور ہنساتے رہتے تھے ۔ ان کے ساتھ ہمارا بڑا اچھا وقت گذرتا تھا۔ اس میموریل ڈے پر مجھے وہ بہت یاد آ رہے ہیں۔
بہت سے سابق فوجیوں کو سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں ایک ہی شخص میں رحم دلی اور نرم خوئی، جرأت اور حوصلہ مندی کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ سارجنٹ کارڈیز عراق میں زخمی ہوئے تھے۔ وہ یہاں ہسپتال میں اپنے ایک عزیز ساتھی کی ہلاکت کے بعد، ڈپریشن کے لیے زیر ِ علاج ہیں ۔ وہ کہتے ہیں:
میرا یہ ساتھی ایسا شخص تھا جو کسی مشن پر آتا تو کبھی سوتا ہی نہیں تھا۔ وہ اپنے یونٹ کے لیئے سب کچھ کرنا چاہتا تھا۔ علی الصبح وہ مجھے کافی دیتا۔ وہ اپنے سپاہیوں کا بڑا خیال رکھتا تھا ۔ جب وہ ہلاک ہوا تو سب کو بڑا دکھ ہوا ۔ میں اپنی زندگی میں کسی اور اتنے اچھے آدمی سے نہیں ملا۔ جب آپ کا کوئی دوست آپ سے بچھڑ جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی لمحے اسے بھول نہیں سکتے۔ میرے کمرے میں اس کی ایک تصویر لگی ہوئی ہے۔ جب کبھی میں اسے دیکھتا ہوں، سلیوٹ کرتا ہوں۔
بعض سابق فوجیوں کو میدان جنگ میں ہلاک ہونے والے ایسے فوجی یاد رہ جاتے ہیں جن سے وہ کبھی نہیں ملے ۔ مائیکل آنڈرے ویتنام کی جنگ میں لڑ چکے ہیں۔ انہیں 1968 کا وہ وقت یاد آتا ہے جب ایک امریکی فوجی ،شمالی ویتنام کے فوجیوں کے نرغے میں پھنس گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں:
مجھے وہ ہولناک دن اچھی طرح یاد ہے ۔ میں ایک سیاہ فام، لمبےچوڑے امریکی سپاہی کی بات کر رہا ہوں۔ وہ کھلے میدان میں کھڑا تھا اور سب کی گولیوں کی زد میں تھا۔ اس کے یونٹ کے سب سپاہِی کھیت ہو چکے تھے اور وہ اکیلا اپنے گھٹنو ں پر کھڑا، اپنی گن فائر کیے جا رہا تھا۔ مجھے وہ لمحہ آج بھی یاد ہے ۔ وہ آخری لمحے تک، صحیح معنوں میں ایک ہیرو کی طرح لڑتا رہا ۔
ویتنام کی جنگ ختم ہوئے 35 سال گذر چکے ہیں اور اب دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہو چکی ہے ۔رونی بارنز کو جنھوں نے ویتنام کے جنگلوں میں ہر طرف موت کا رقص دیکھا تھا، وہ دن آج بھی یاد ہے جب ایک گمنام ویت کانگ سپاہی کا مردہ جسم ان کے ہاتھوں میں لٹک رہا تھا ۔ انھوں نے اس سپاہی کو ایک خنجر سے ہلاک کیا تھا۔ انھوں نے بتایا:
میں نے چاقو سے اس کا گلا کاٹ ڈالا تھا۔ میں اپنے گرد و پیش سے بے خبر، اس کی لاش ہاتھوں میں لیے سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ مجھے ہوش میں لانے کے لیئے میرے سارجنٹ نے مجھے زور دار مکہ مارا۔ کسی کو ہلاک کرنا آسان کام نہیں ہے ۔فلموں کی بات دوسری ہے ۔
ارجنٹائن کے آنجہانی مصنف ہوزے ناروسکی نے ایک بار کہا تھا کہ جنگ میں کوئی سپاہی ایسے نہیں ہوتے جو زخمی نہ ہوئے ہوں۔ میدان جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کو، اور ان لوگوں کو یاد کرکے جن کے زخم اب تک بھرے نہیں ہیں، امریکی اپنے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتےہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG